al-mansoor

Tuesday, October 4, 2011

Hayat-e- Zafir Maqala


حےات ظفےرؒ- اےک اجمالی مطالعہ
ڈاکٹر عبدالودود قاسمی
حضرت مولانا مفتی محمد ظفےر الدےن مفتاحیؒ سابق مفتی دارالعلوم دےوبند عظےم المرتبت فقےہ بھی تھے اور بلندپاےہ عالم بھی۔ صاحب نظر، اہل نظر بھی تھے اور کثےر التصانےف مصنف بھی، اولوالعزم مجاہد آزادی بھی تھے اور صاحب طرز انشاءبرداز بھی۔ گذشتہ دنوں امارت شرعےہ کی تاسےسی اجلاس کے موقع پر حضرت مولانا مفتی ظفےرالدےن مفتاحیؒ کی حےات اور کارنامے پر مشتمل ”حےات ظفےر“ نامی کتاب کا اجرا حضرت مولانا سےد محمد رابع حسنی ندوی (ناظم اعلی ندوة العلماءلکھنو¿)، امےر شرےعت مولانا سےد نظام الدےن صاحب ودےگر متعدد اصحاب علم ودانش کے مبارک ہاتھوں ہوا۔ پےش نظر کتاب حضرت مفتی صاحبؒ کی علمی، ادبی، فقہی اور تارےخی کارناموں اور زندگی کے تمام گوشوں پر مشتمل مقالات ومضامےن کا مجموعہ ہے جسے پروفےسر ڈاکٹر سعود عالم قاسمی صدر شعبہ دےنےات مسلم ےونےورسٹی علی گڈھ نے بہت ہی عقےدت ومحبت اور محنت وجانفشانی سے مرتب کےا ہے۔
حضرت مفتی صاحبؒ دربھنگہ کے اےسے لعل وگہر تھے جس پر اہل دربھنگہ جس قدر ناز کرے کم ہے، ان کے وصال سے اےک خلاءپےدا ہوگےا ہے۔ مفتی صاحبؒ کے کارنامے مثل کہکہشاں بکھرے پڑے ہےں۔ حضرت مفتی صاحبؒ سے فےضےاب ہونے اور تربےت پانے والوں کی تعداد بےشمار ہےں ”حےات ظفےر“ کے مرتب ڈاکٹر سعود عالم قاسمی کے الفاظ مےں:
” جبکہ ان کے شاگردوں مےں وقت کے مشہور علماءوفقہاء، اصحاب افتاءاور اصحاب قلم شامل ہےں“۔
حضرت مفتی صاحبؒ کے وصال کے بعد ان کی حےات وخدمات پر مجلہ نکالنے اور سےمےنار کرانے کا خاکہ ےقےنا مفتی صاحبؒ کے کئی شاگردوں اور متعلقےن کے ذہن مےں رہا ہوگا۔ مےں نے بھی اس سلسلے مےں کئی احباب سے گفتگو کی مگر اسے عملی جامہ نہےں پہناسکا، ےہ تو اللہ کی مرضی اور فضل ہے کہ وہ جس سے چاہے کام لے لے۔ حضرت مفتی صاحبؒ کی حےات وخدمات پر پہلا سمےنار منعقد کرنے کا سہرا مفتی صاحب کے شاگرد رشےد جو کہ خود جےد عالم دےن اور صاحب قلم بھی ہےں، مولانا مفتی امام عادل قاسمی (مہتمم جامعہ ربانی منوروا، سمستی پور) ان کے سر جاتا ہے۔ موصوف نے مفتی صاحب کے وصال کے چند اےام بعد ہی اپنے ادارہ مےں حضرت مفتی صاحبؒ کی حےات وخدمات پر سےمےنار منعقد کرکے ان کی حےات وخدمات کو اجاگر کرنے کی بساط بھر کوشش کی۔ موصوف کا ےہ قدم ےقےنا قابل تحسےن ہے۔
حضرت مفتی صاحبؒ نہ صرف ضلع دربھنگہ اور صوبہ بہار بلکہ پورے ہندوستان کے اہل علم ودانش کے لئے سرماےہ افتخار تھے۔ جس طرح شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد ان کی زندگی کے متعدد گوشوں پر مشتمل دنےا کا پہلا مجلہ ”جوہر اقبال“ مرتب کرنے مےں اولےت کا سہرا دربھنگہ کے ہی اےک خوش بخت جناب سےد حسنےن جامعیؒ کے سر جاتا ہے۔ بعےنہ اسی طرح مےری معلومات کے مطابق حضرت مفتی صاحبؒ کے اہل قلم شاگردوں کی کثرت کے باوجود مفتی صاحبؒ کی حےات وخدمات پر مشتمل پہلی کتاب ”حےات ظفےر“ نکالنے کا سہرا نامور عالم دےن اور اہل قلم پروفےسر ڈاکٹر سعود عالم قاسمی کے سر بندھتا ہے۔ موصوف کا ےہ کارنامہ قابل تحسےن ہے۔ ڈاکٹر سعود عالم قاسمی نے ”عرض مرتب“ کے تحت لکھا ہے:
”ےہ مجموعہ جہاں حضرت مفتی صاحبؒ کی زندگی کو خراج عقےدت ہے وہاں ان کے عزےزوں اور شاگردوں کے لئے سامان ہے اور بعد والوں کے لئے شاےد علمی دستاوےز بھی۔“
(۲)
”حےات ظفےر“ مےں متعدد اصحاب علم ودانش کے مضامےن ومقالات اور تاثرات شامل ہےں۔ ”پےش لفظ“ کے تحت فقےہ عصر حضرت مولانا خالد سےف اللہ رحمانی لکھتے ہےں:
”نہاےت مسرت کی بات ہے کہ ممتاز صاحب علم اور معروف مصنف پروفےسر مولانا سعود عالم قاسمی (ڈےن فےکلٹی تھےالوجی، مسلم ےونےورسٹی علی گڑھ) جو مفتی صاحبؒ کے تربےت ےافتہ بھی ہےں اور خاندانی رشتہ دار بھی۔ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ مفتی صاحب کے حالات وخدمات پر مضامےن کا ےہ مجموعہ مرتب کےا ہے جس مےں ان کی شخصےت کے مختلف پہلوﺅں پر اہل علم کے مقالات شامل کئے گئے ہےں اور کوشش کی ہے کہ صاحب تذکرہ کی خدمات مختلف جہتوں سے سامنے آجائےں۔“ (حےات ظفےر: ص ۸۱)
مذکورہ کتاب کی ”تقرےظ“ مےں نامور عالم دےن حضرت مولانا ابوالقاسم صاحب نعمانی مہتمم دارالعلوم دےوبند نے حضرت مفتی صاحب کی اسلوب نگارش اور ان کی جامع شخصےت سے متعلق لکھا ہے:
”مفتی صاحب بہت سلےس زبان لکھتے تھے، ان کے فتاویٰ بھی واضح ہوتے تھے، تحرےر بھی خوبصورت تھی، زندگی نہاےت سادہ تھی، نماز باجماعت کا بےحد اہتمام کرتے تھے، مجموعی اعتبار سے ان کی شخصےت ےاد رکھے جانے کے لائق اور آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ ہے۔“ (حےات ظفےر: ص ۰۲)
ان کے علاوہ ”حےات ظفےر“ مےں تقرےباً تےن درجن مضامےن ومقالات حضرت مفتی صاحبؒ کی زندگی کے مختلف گوشوں پر محےط شامل ہےں۔
مشاہدات وتاثرات کے تحت مولانا ڈاکٹر سعےد الرحمن اعظمی، حضرت الاستاذ مولانا سعےد احمد پالنپوری، مولانا مفتی فضےل الرحمن، ہلال عثمانی، استاذی مولانا قاری ابوالحسن اعظمی، نامور اسلامی اسکالر اور تعمےری ادب کے علمبردار پروفےسر محسن عثمانی ندوی وغےرہ کے گرانقدر مقالات شامل ہےں۔
نقش حےات کے تحت حضرت مفتی صاحبؒ کے اجمالی حالات مرتب کتاب کی تحرےر کردہ ہےں۔ وہےں مفتی صاحبؒ کے ہونہار فرزند سعےد ڈاکٹر ابوبکر عباد نے ”مےرے ابو جان“ عنوان سے اپنے والد ماجد کے چند اہم گوشوں کو اجاگر کےا ہے۔ ان کے علاوہ استاذی مولانا نورعالم خلےل امےنی، مولانا خالد سےف اللہ رحمانی، مولانا محمد اسلام قاسمی اور حضرت مفتی صاحبؒ کے بڑے صاحبزادہ ڈاکٹر احمد سجاد کی نگارشات شامل ہےں۔
علمی خدمات کے تحت نامور ناقد وادےب پروفےسر ابوالکلام قاسمی، مولانا عتےق احمد بستوی، مولانا محمد مجتبیٰ قاسمی، پروفےسر محمد سعود عالم قاسمی وغےرہ کے مضامےن حضرت مفتی صاحبؒ کی علمی خدمات کا احاطہ کئے ہوئے ہےں۔
تصنےفی سرماےہ باب کے تحت مولانا مفتی بدرالحسن قاسمی، ڈاکٹر عبےد اقبال عاصم، ڈاکٹر احمد سجاد قاسمی، مولانا اشرف عباس قاسمی اور مولانا نسےم اختر شاہ قےصر وغےرہ کے جامع مقالات مےں حضرت مفتی صاحبؒ کی تصنےفی خدمات کا ذکر کےا گےا ہے۔
بزرگوں سے تعلقات: اس باب مےں مولانا اختر امام عادل قاسمی، ڈاکٹر مسعود احمد اعظمی، پروفےسر محمد سعود عالم قاسمی، مولانا وصی احمد شمسی اور مرتب کتاب کے مضامےن نے ”حےات ظفےر“ کی رونق مزےد بڑھادئےے ہےں۔
عزےزوں اور شاگردوں: اس باب مےں مشہور سےاست داں جناب عبدالباری صدےقی، پروفےسر سعود عالم قاسمی، مولانا محمد ساجد قاسمی، مولانا اشتےاق احمد قاسمی، ڈاکٹر شمےم اختر قاسمی کے بےش قےمتی تاثراتی مضامےن کے ذرےعہ حضرت مفتی صاحبؒ کی خرد نوازی کا مخلصانہ ذکر جمےل ہے۔
(۳)
”حےات ظفےرؒ“ کا آخری حصہ منظوم خراج عقےدت پر مشتمل ہے جس مےں وارث رےاضی اور حضرت مفتی صاحبؒ کے فرزند اکبر ڈاکٹر احمد سجاد قاسمی جو کہ خود ادےب اور کہنہ مشق شاعر بھی ہےں، ان کے منظوم کلام اور ڈاکٹر عبدالمنان طرزی کی ”قطعہ تارےخ وفات“ کی شمولےت سے حےات ظفےر مےں چار چاند لگ گئے ہےں۔
مجھے ےقےن ہے کہ مذکورہ کتاب عام وخواص لوگ اور نئے نسلوں کے لئے بہت مفےد اور کارآمد ثابت ہوگی۔ بالخصوص حضرت مفتی صاحبؒ پر تحقےقی کام کرنے والے رےسرچ اسکالروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ ”حےات ظفےر“ کو فےفا پبلےکےشنز نئی دہلی نے شائع کےا ہے جو ۶۷۳ صفحہ پر مشتمل ہے۔ مذکورہ گرچہ بہت ہی عجلت مےں شائع کی گئی ہے پھر بھی کتاب کی طباعت اور گےٹ اپ قابل تحسےن ہے۔ دوسری اہم بات ےہ کہ کتاب پر قےمت درج نہےں۔ ےقےنا ےہ مرتب کتاب ڈاکٹر سعود عالم قاسمی کے خلوص ومحبت کا ہی ثمرہ ہے کہ کتاب پر قےمت درج نہےں ہے بلکہ اسے ےوں ہی تقسےم کےا جارہا ہے۔ اعتذار کے ساتھ ےہ عرض کرنا ہے کہ حضرت مفتی صاحبؒ کی وابستگی امارت شرعےہ سے عرصہ دراز سے رہی ہے اس لئے مےں ذمہ داران امارت شرعےہ کی توجہ اس جانب مبذول کراﺅں گا کہ امارت کا ترجمان ”نقےب“ کا خصوصی گوشہ حضرت مفتی صاحبؒ پر شائع کرنے کی زحمت کرےں تاکہ امارت شرعےہ سے وابستہ زےادہ سے زےادہ افراد حضرت مفتی صاحب کی علمی، ادبی، فقہی اور تارےخی کارناموں سے واقف ہوسکے۔ کاش! اےسا کےا جاتا۔
خلاصہ کلام ےہ کہ ”حےات ظفےر“ ان شاءاللہ مستقبل مےں کافی کارآمد ثابت ہوگی، اللہ پاک مرتب کتاب کو اجر عظےم عطا فرمائے۔ حضرت مفتی صاحبؒ کی مختلف الجہات شخصےت اس قدر متنوع ہے کہ آپ پر جس قدر خامہ فرسائی کی جائے کم ہے۔ بقول شاعر:
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفےنہ چاہئے اس بحر بےکراں کےلئے
٭٭٭



DR. ABDUL WADOOD QASMI
RAM NANDAN MISHR, GOVT. GIRLS +2 SCHOOL
LAHERIA SARAI, DARBHANGA (BIHAR)
Contac : 9431051146
 

Sunday, September 25, 2011

Syed Suleman Nadvi


مولانا سےد سلےمان ندویؒ
(صباح الدےن عبدالرحمن مرحوم کی اےک تحرےر سے)
 سےد صاحب کی ولادت ۵۸۸۱ءمےں دےسنہ ضلع پٹنہ مےں ہوئی جو صوبہ بہار مےں سادات کا اےک مردم خےزگاﺅں ہے۔ عربی کی تعلےم اپنے بڑے بھائی مولوی حکےم سےد ابوحبےب صاحب رضوی مجددی سے شروع کی پھر اےک برس پھلواری شرےف مےں اور چند مہےنے مدرسہ امدادےہ دربھنگہ مےں رہی۔ اس کے بعد ۱۰۹۱ءمےں دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو ¿ مےں داخل ہوئے اور وہےں سات برس رہ کر علوم عربےہ کی تکمےل کی۔
 سےد صاحب کا خاندانی پےشہ طبابت تھا۔ اہل خاندان چاہتے تھے کہ ےہ طب پڑھےں مگر موصوف کی طبےعت ادھر مائل نہ تھی۔ ۶۰۹۱ءمےں مولانا شبلی پٹنہ آئے ہوئے تھے او ر جسٹس مولوی شرف الدےن صاحب ےا مولوی خدا بخش خاں صاحب کے ےہاں ٹھہرے تھے کہ اتفاقاً موصوف کے چھوٹے چچا مولوی ابوےوسف صاحب کی ملاقات مولانا سے ہوئی، مولوی صاحب نے علامہ شبلی سے عرض کےاکہ سےد سلےمان کو نصےحت فرمائی جائے کہ وہ طب پڑھےں۔ مولانا نے فرماےا ”آپ لوگ اس کو کےوں خراب کرنا چاہتے ہےں، اس کو مےرے حوالہ کردےجئے، مےں اس کی تربےت کرکے اپنے کام کا بناﺅںگا“ چنانچہ اس دن سے اہل خانہ نے ان کو مولانا کی نذر کردےا۔
 سےد صاحب کو طالب علمی سے ”الندوہ“ کی دےکھ بھال کی خدمت سپرد تھی، وہ ۶۰۹۱ءمےں اس کے سب اےڈےٹر مقرر ہوئے، ان کے مضامےن نے ان کی شہرت کو چار چاند لگادےئے۔ ۸۰۹۱ مےں دارالعلوم مےں علم کلام اور جدےد ادب عربی کے استاد مقرر ہوئے، دو برس کے بعد مولانا شبلی کے قائم کردہ شعبہ ”سےرة النبی“ مےں ان کے لٹرےری اسسٹنٹ ہوئے۔ ےہ وہ زمانہ تھا جب تمام ہندوستان طرابلس کی جنگ کے ہنگامہ سے پرشور تھا، پھر بلقان کی لڑائی شروع ہوگئی اور مسلمانوں کی سےاسےات کا قطہ نظر بدل گےا۔ اس کا ےہ نتےجہ ہوا کہ وہ خالص علمی مشاغل کو چھوڑ کر سےاسےات مےں آئے۔
 جب ۰۱۹۱ءمےں مولانا ابوالکلام آزاد نے جو خود بھی مولانا شبلی کے ہم نشےں اور صحبت ےافتہ ہےں، کلکتہ سے ”الہلال“ نکالا تو سےد صاحب موصوف علمی وتعلےمی مشاغل کو چھوڑ کر ۰۱۹۱ءمےں الہلال کے اسٹاف مےں داخل ہوگئے اور ا کے اصلی ہےجان کے زمانہ مےں اس کے مضامےن مےں شرےک رہے۔ بلقان او ر مسجد کانپور کے زمانہ مےں وہ کلکتہ مےں مولانا ابوالکلام کے ساتھ سرگرم عمل رہے۔ الہلال مےں واقعہ کانپور پر ”مشہد اقدس“ کے عنوان سے سےد صاحب جو مضمون لکھا تو وہ بڑا انقلاب انگےز تھا۔ گورنمنٹ نے اس کو ضبط کرلےا۔ واقعات کے سکون کے بعد وہ پھر دفتر سےرت مےں آگئے اور ےہاں سے ۲۱۹۱ءمےں مولانا کے حکم سے ممبئی ےونےورسٹی کے ماتحت دکن کالج پونہ مےں السنہ مشرقےہ کی معلمی قبول کی۔ ابھی دو برس بھی نہےں گذرے تھے کہ نومبر ۴۱۹۱ءمےں مولانا شبلی نے انتقال کےا۔ مرتے دم شاگرد کو تار دے کر بلواےا اور وصےت کی کہ وہ سب کام چھوڑ کر سےرة النبی کی تکمےل کرےں جس کو وہ ناتمام نامرتب چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ انہوںنے استاذ کی وصےت کے مطابق سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دےا۔ سےرة النبی کی بقےہ جلدوں کی تکمےل کی۔ سےرت کے موضوع پر ےہ کتاب اپنے وقت کی وقےع ترےن کتاب ہے اور ا سکی چھ ضخےم جلدےں اسلامی معلومات کا خزانہ اور جدےد علم کلام کی اساس ہےں۔
 موصوف کی سب سے پہلی تصنےف دروس الادب کے نام سے عربی کی دو رےڈرےں ہےں۔ ۲۱۹۱ءمےں مولانا شبلی کے اشارہ سے لغات جدےدہ کے نام سے انہوںنے جدےد عربی الفاظ کی ڈکشنری لکھی۔ اس کے بعد ارض القرآن کی دو جلدےں لکھےں۔ پہلی ۵۱۹۱ءاور دوسری ۸۱۹۱ءمےں، اس کتاب نے ہندوستان کے علمی حلقہ مےں ہلچل مچادی۔ بعد ازاں نواب سلطان بےگم والی بھوپال کی فرمائش پر ۰۲۹۱ءمےں سےرت عائشہ لکھی۔ ان تصانےف کے ساتھ ساتھ ملک کے دےگر علمی وتعلےمی، مذہبی مدارس ومجالس کی خدمات بھی بجا لاتے رہے۔
 ۵۱۹۱ءمےں انجمن ترقی اردو کے سالانہ اجلاس مےں منعقدہ پونہ کی صدارت کی اور اس مےں وہ خطبہ صدارت پڑھا جو آگے چل کر اردو کی تارےخ پر تحقےق کرنے والوں کے لئے پےش خےمہ ثابت ہوا۔ ۴۱۹۱ءکے آخر مےں ترکی نہ جب جنگ عظےم مےں شرکت کی تو مسلمانوں مےں ہےجان ہوا اور بڑے بڑے مسلمان ارباب فکر قےد وبند مےں ڈالے گئے۔ اس موقع پر جو نےا گروہ اکابرےن کی قائم مقامی کے لئے بڑھا ان مےں اےک شخصےت ان کی بھی ہے۔ ۵۱۹۱ءسے لے کر ۶۱۹۱ءتک انہوںنے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی سےاسی تحرےکات مےں شمولےت کی۔ ۷۱۹۱ءمےں مجلس علمائے بنگال کلکتہ کے نہاےت اہم اجلاس سالانہ کی صدارت کی جس مےں تمام رہنماےان ہند شرےک تھے۔ اس اجلاس مےں موصوف نے جو خطبہ پڑھا وہ بنگال مےں بڑا اثر انداز ہوا۔ےہ پہلا خطبہ تھا جس مےں جنگ کے ہےبت ناک اثرات کے باوجود مولانا ابوالکلام آزاد وغےرہ کا نام جو اس زمانہ مےں نظربند تھے جرا ¿ت کے ساتھ لےا گےا ا ور لوگوں کے دلوں سے رعب اٹھا۔
 ۹۱۹۱ءمےں خلافت کے سب سے پہلے اجلاس لکھنو ¿ مےں شرکت کی، بلکہ علما اور خاص ارباب سےاست کے درمےان حلقہ اتصال کا کام کےا اور اےسی پرجوش تقرےر کی کہ مسند صدارت سے پائےں تک ساری مجلس بزم ماتم بن گئی اور مولانا عبدالباری مرحوم اور چودھری خلےق الزماں صاحب وغےرہ کے سارے اختلافات خس وخاشاک کی طرح اس سےل نم مےں بہہ گئے۔
 فروری ۰۲۹۱ءمےں مولانا محمد علی جوہر کی سرگردی مےں معاملات ترکی مےں انصاف طلبی اور مسلمانان ہند کے مطالبات کی تشرےح کے لئے جو خلافت ڈےپوٹےشن ےورپ بھےجا گےا اس کے تےن ممبروں مےں اےک ممبرہ وہ بھی منتخب ہوئے۔ اس وفد کے ساتھ اٹلی، فرانس اور انگلستان مےں حقوق ترکی کے لئے زبان وقلم اور دعوت اشاعت کے ذرےعہ سے لڑتے اور وہاں کے وزرا، ارباب سےاست اور آزاد مسلمانوں کے گروہ در گروہ سے جو فرانس، سوئٹزرلےنڈ اور اٹلی مےں تھے ملتے اور تحرےکات مےں شمولےت کرتے رہے۔
 ۰۲۹۱ءکے آخر مےں ےورپ کے سفر سے واپس آکر وہ کانگرےس مےں داخل ہوئے اور ترک موالات کی تحرےک مےں دےگر علماءوزعماءکے ساتھ مل کر ملک کا دورہ کےا۔ خلافت اور جمعےة العلماءکی مجلس عاملہ کے رکن مقرر ہوئے اور ۷۳۹۱ءتک اس کے جزو وکل مےں شرےک رہے۔
 ۴۲۹۱ءمےں ابن سعود اور شرےف حسےن مےں جب جنگ کا آغاز ہوا اور دونوں نے مجلس خلافت کی طرف ہاتھ بڑھاےا تو مسلمانان ہند نے موصوف کی صدارت مےں اےک وفد حجاز کو بھےجا تاکہ وہ فرےقےن کے سامنے مجلس خلافت کی تجاوےز کو پےش کرے۔ اس سلسلہ مےں انہوںنے دو ماہ جدہ مےں عےن جنگ کے زمانہ مےں رہ کر مفوضہ فرائض کو انجام دےا اور بڑی دلےری سے شرےف حسےن اور سلطان ابن سعود کی حکومتوں سے حجاز مےں عربوں کی اےک جمہوری حکومت کے قےام کے مسئلہ مےں گفتگو اور خط وکتابت کرتے رہے اور جب اس مےں ناکامی ہوئی تو حجاز سے مصر کا سفر کےا اور وہاں کے علماءاور اکابر سے مل کر حجاز کے معاملہ پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کا نتےجہ ےہ ہواکہ شےخ ازہر نے ان تجاوےز پر اپنی رضامندی ظاہر کی، ےہ اس وفد کی اےسی کامےابی تھی کہ ”رائٹر“ نے اس کی خبر مصر سے ہندوستان بھےجی اور دنےا کے دوسرے شہروں مےں مشتہر کی۔
مارچ ۶۲۹۱ءمےں کلکتہ مےں جمعےة العلماءکا جو اہم سالانہ اجلاس ہوا اس کے وہ صدر منتخب ہوئے۔ اس موقع پر موصوف نے جو خطبہ صدارت پڑھا وہ ہندوستان کی اسلامی سےاسےات مےں ےادگار ہے، اسی سال وہ پھر دوسرے وفد حجاز کے صدر منتخب ہوئے۔ ےہ ہندوستان مےں شدھی اور سنگٹھن کے زور کا زمانہ تھا۔ اس موقع پر دہلی مےں مجلس خلافت کا خاص اجلاس ہوا اور حکےم اجمل خاں مرحوم کی تحرےک پر موصوف نے اس کی صدارت کی۔ اس اجلاس مےں موصوف نے ہندومسلمان تعلقات کی نسبت مسلمانوں کے نقطہ نظر کو علی الاعلان پےش کےا۔
اس کانفرنس سے فارغ ہوکر وہ حجاز کا وفد خلافت لے کر جس کے ممبر مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی اور شعےب قرےشی تھے حجاز کو روانہ ہوئے۔ اس وقت سلطان ابن سعود نے تمام دنےا سے مسلمانوں کی کانفرنس مکہ معظمہ مےں طلب کی تھی۔ ترکی، مصر، افغانستان، ےمن او ر دسرے اسلامی ملکوں کے نمائندے شرےک اجلاس تھے اور چند ہفتوں تک برابر اس کے اجلاس ہوتے رہے۔ تمام دنےا کے نمائندوں نے بہت بڑی اکثرےت سے موصوف کو اس اجلاس کا وائس پرےسےڈےنٹ (نائب الرئےس) منتخب کےا اور متعدد دفعہ انہوںنے صدر اجلاس کی غےر حاضری مےں اس اسلامی موتمر کے جلسوں کی صدارت کی۔ اسی سفر مےں حجاز کے معاملات اور ابن سعود کے تسلط کی موافقت ومخالفت کے مسائل مےں وہ اپنے رفقاءمولانا محمد علی صاحب وغےرہ سے اختلاف رائے کی بنا پر سےاسےات سے کنارہ کش ہوکر خالص اصلاحی وعلمی وتعلےمی کاموں مےں منہمک ہوگئے۔
سےد صاحب موصوف کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ دارالمصنفےن ہے جو مولانا شبلی کی ےادگار مےں ۴۱۹۱ءمےں مولانا شبلی کے موطن ومدفن اعظم گڈھ مےں قائم ہوا۔ اس ادارہ نے اسلامی علوم وفنون پر بہت سی کتابےں شائع کی ہےں۔ ”معارف“ اس کا ماہوار رسالہ ہے، سےد صاحب نے ۵۲سال سے زائد عرصہ تک اس کی ادارت کی۔
۳۳۹۱ءمےں ہزمجسٹی شاہ نادر خاں کی دعوت پر ڈاکٹر سراقبال اور نواب سر راس مسعود کے ساتھ کابل ےونےورسٹی کے قےام کے مشوروں کے لئے کابل گئے اور وہاں حکومت کے مہمان رہے اور اسی سلسلہ مےں غزنی اور قندھار کا سفر کےا۔ ۵۳۹۱ءمےں رےاست حےدر آباد دکن نے ضابطہ فوجداری شرعی کی تدوےن کی خدمت ان کے سپرد کردی۔ جس کو بخوبی انجام دےا۔ رےاست نے اس ضابطہ پر نظر ثانی کرنے کے لئے اےک کمےٹی مقرر کی جس مےں اےک سابق جج ہائی کورٹ، مفتی رےاست اور آپ تھے۔ اس کمےٹی نے اےک مہےنہ مےں اپنا کام پورا کےا۔
فلسطےن کے مسئلہ مےں انہوںنے اپنی آواز بلند کی اور ۶۳۹۱ءکی آل انڈےا فلسطےن کانفرنس دہلی کی صدارت کی۔ اس موقع پر جو خطبہ انہوںنے پڑھا اس نے سارے ملک بلکہ دنےائے اسلام مےں تہلکہ مچادےا۔ مصر اور شام کے اخبارات نے اس کے ترجمے چھاپے، مجلس اعلیٰ فلسطےن کے صدر سےد امےن الحسےنی نے تار سے ان کا شکرےہ ادا کےا۔
دارالعلوم ندوة العلماءکے معتمد، علی گڈھ ےونےورسٹی کورٹ، ہندوستانی اکےڈمی الہ آباد، مدرسہ اکزامنےشن بورڈ پٹنہ، ہندوستانی کمےٹی حکومت بہار اور جامعہ ملےہ اسلامےہ دہلی کے ممبر رہے۔ اردو زبان اور اردو ادبےات سے ان کو ہمےشہ ذوق رہا، ان کے قلم کی نکلی ہوئی تحرےرےں ادب اردو کا اعلیٰ نمونہ سمجھی جاتی ہےں، ہندوستانی زبان کی تحرےک کی بنےاد انہی نے ڈالی۔ دروس الادب (عربی رےڈر) لغات جدےدہ (عربی لغات) ارض القرآن دو جلدےں، سےرة عائشہ، سےرة النبی کی پانچ ضخےم جلدےں، حےات ام مالک، خطبات مدارس، عرب وہند کے تعلقات، عربوں کی جہاز رانی، خےام ان کی مشہور کتابےں ہےں۔ ان کے علاوہ خلافت اور تعلےم کے موضوع پر چند رسالے اور بے شمار علمی وادبی مضامےن آپ نے لکھے۔
علامہ سےّد سلےمان ندوی
پروفےسر ضےاءالدےن احمد برنی
 ضلع پٹنہ مےں دےسنہ نام کا اےک موضع ہے۔ ےہ بڑا مردم خےز حلقہ ہے۔ اس چھوٹے سے گاﺅں نے جتنے گرےجوےٹ پےدا کئے ہےں اتنے ہندوستان کے کسی اور گاﺅں نے نہےں پےدا کئے ہوںگے۔ اس طرح اس نے عربی کے بھی متعدد منتہی پےدا کےے۔ انہی مےں سےد سلےمان کا شمار ہے۔دارالعلوم ندوہ کے کسی سالانہ اجلاس مےں سےد صاحب نے پہلی دفعہ عربی مےں برجستہ تقرےر کی جسے سن کو علامہ شبلی اس قدر خوش ہوئے کہ انہوںنے جلسہ مےں اپنا عمامہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دےا۔ اسی طرح جب علامہ سےد رشےد رضا (اےڈےٹر المنار) دارالعلوم ندوہ دےکھنے کے لئے لکھنو ¿ آئے تو اس موقع پر سےد سلےمان نے عربی مےں ان کا خےر مقدم کےا جس سے رشےد رضا اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوںنے انہےں گلے لگالےا۔
بالائے عرش زہوش مندی
می تافت ستارئہ بلندی
 سےد صاحب نے کچھ دن تک دارالعلوم کی سند تدرےس کو زےنت بخشی۔ کچھ عرصہ تک ”الہلال“ مےں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ کام کےا۔ اس کے بعد دکن کالج پونا مےں دوسال تک فارسی کے اسسٹنٹ پروفےسر رہے۔ پھر علامہ شبلی نے انہےں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دےنے اور دارالمصنفےن مےں آکر کام کرنے کا حکم دےا۔ چنانچہ وہ اپنے استاد کی خواہش پر دارالمصنفےن چلے گئے۔ پونا کے دوران قےام مےں انہوںنے ”ارض القرآن“ لکھی جسے مشرق ومغرب کے مستشرقےن نے بہت سراہا۔ اس موضوع پر ےہ پہلی کتاب ہے اور تحقےق وعلمےت کا نادر نمونہ ہے۔ وفات سے قبل علامہ شبلی نے سےد صاحب سے تاکےد فرماےا کہ ”سےرت نبوی کے کام کو سب کاموں پر اولےت دی جائے“ ےہ حقےقت ہے کہ جس خوش اسلوبی سے انہوںنے اپنے آستانہ کی نامکمل کتاب کو پاےہ تکمےل پہنچاےا اس کی وجہ سے علمی دنےا مےں ان کا نام دور دور مشہور ہوگےا۔ سےرت کی چھ جلدوں مےں ابتدائی پونے دو استاد کی ہےں۔ سےد صاحب ساری عمر طالب علم رہے۔ اےک زمانہ مےں وہ سےاسےات مےں بھی حصہ لےتے تھے لےکن انہوںنے اس خارزار سے بہت جلد اپنا دامن چھڑالےا اور خاموش علمی خدمت مےں اپنی بقےہ عمر گزاردی۔ ان کی کتابےں ”عمر خےام“ عرب وہند کے تعلقات“ وغےرہ تحقےق کے اعتبار سے حرف آخر کی حےثےت رکھتی ہے۔
 ۰۲۹۱ءمےں جب وفد خلافت انگلستان بھےجنے کی تجوےز ہوئی تو اپنی غےر معمولی علمی فضےلت کی وجہ سے انہےں علمائے ہند کی جانب سے وفد مےں شامل کےا گےا۔ وہاں انہوںنے ممتاز مستشرقےن سے ملاقاتےں کےں اور انہےں اپنا ہم خےال بناےا۔ جولائی کے ”فارےن افےئرز“ مےں ان کا اےک مضمون شائع ہوا تھا جس مےں خلافت کے مذہبی پہلو کو نہاےت قابلےت سے اجاگر کےا گےا تھا۔ سےد صاحب کا اےک اور کارنامہ ےہ ہے کہ انہوںنے اپنے استاد کے سوانح حےات اےک مبسوط کتاب کی صورت مےں لکھی۔
 سےد صاحب کی نماز جنازہ نےوٹاﺅن مسجد (لاہور) مےں ہزارہا اشخاص کی موجودگی مےں ادا کی گئی۔ مملکت شام کے ثقافتی اتاشی شےخ ابوالخےر نے تدفےن کے بعد تقرےر کرتے ہوئے فرماےا: ”مجھے غم اس بات کا نہےں ہے کہ سےد سلےمان ہم مےں سے اٹھ گئے، مجھے اگر غم ہے تو اس بات کا کہ علم بھی ان کے ساتھ دفن ہوگےا“۔
 سےد صاحب فطرةً نہاےت خاموش اور قناعت پسند انسان تھے۔ ان کی زندگی مےں ہمےں دےن ودنےا دونوں متوازن طرےقے سے سموئے ہوئے ملتے ہےں۔ ان کی زندگی کی پاکےزگی ان کے چہرے سے ہوےدا تھی۔ جن دنوں وہ دکن کالج پونا سے وابستہ تھے، اسی زمانہ کا اےک واقعہ مجھے ےاد رہ گےا ہے جسے خود سےد صاحب نے سناےا تھا۔ فرماتے تھے: ”ہمارے کالج کا اےک پروفےسر مراٹھی مےں کسی کو ڈانٹ رہاتھا، لےکن گالےاں اردو مےں دے رہا تھا۔ اس پر مےں نے پوچھا کہ کےا مراٹھی مےں ان گالےوں کے مترادفات موجود ہےں؟ کہا، ہےں تو، مگر اردو کا سا زور ان مےں کہاں؟“ بہرحال سےد صاحب ےہ دےکھ کر خوش تھے کہ خواہ کسی حےثےت سے سہی اردو کا سکہ دور دور تک جاری وساری تو ہے۔
 ان کی تنہا ذات اےک انجمن کی حےثےت رکھتی تھی۔ عام مولوےوں کی طرح وہ زاہد خشک نہ تھے۔ وہ بلبل ہزار داستان تھے اور ےوروپ اور حجاز کے سفروں کے واقعات مزے لے لے کر بےان کرتے تھے۔ ان کی طبےعت مےں مزاح تھا لےکن وہ شائستگی کے حدود سے کبھی آگے نہےں بڑھا۔ اس سلسلہ مےں اےک واقعہ قابل ذکر ہےں۔ اےک دفعہ مولانا.... دارالمصنفےن تشرےف لائے۔ عےن اس وقت کہےں سے کوئی گدھا بھی اندر آگےا۔ مولانا نے حےرت سے سےد صاحب سے پوچھا کہ ”ےہاں گدھے بھی آجاتے ہےں؟“ فرماےا، ”ہاں، کبھی کبھی باہر سے آجاتے ہےں۔“ ےہ جواب سن کر مولانا چپ سادھ گئے۔ انہےںجو محبت اپنے استاد (علامہ شبلی) سے تھی اسے دےکھ کر پرانے زمانے کے گرو اور چےلے کے تعلقات کی ےاد تازہ ہوجاتی تھی۔ موجودہ دور کے شاگردوں مےں ان کا سا شغف کبھی دےکھنے مےں نہےں آسکتا۔
 جس زمانہ مےں مےں مدخولہ حکومت بمبئی مےں تھا، دوسرے فرائض کے علاوہ مولانا محمد علی کے خطوط کو سنسر کرنے کی خدمت بھی مےرے سپرد تھی۔ بےجاپور کی قےد کے زمانہ مےں مولانا ۰۸۔۰۸ صفحات کے خط لکھا کرتے تھے اور ان مےں جہاں دنےا بھر کی باتےں ہوتی تھےں وہاں ان کا تازہ کلام بھی ہوتا تھا۔ بےجاپور سے اپنی رہائی سے قبل جو آخری خط مولانا نے لکھا اس مےں ان کی ۲۲اشعار کی اےک غزل بھی تھی جس کا مطلع تھا:
ہے ےہاں نام عشق کا لےنا
اپنے پےچھے بلا لگالےنا
 مےں نے غزل نقل کرکے ”معارف“ مےں چھپنے کے لئے بھےج دی اور پروفےسر سےد سعےد رضا کے ذرےعہ ےہ ہداےت بھجوادی کہ ےہ ظاہر نہ ہونے پائے کہ غزل ان تک کےسے پہنچی۔ مگر سےد صاحب کے شوخ قلم نے تمہےد کے طور پر ےہ الفاظ بڑھا ہی دےے: ”جناب جوہر کا ےہ کلام ان کی آزادی سے پہلے آزاد ہوکر ہمارے پاس پہنچا تھا۔“
 سےد صاحب کی موت سے پاکستان اور بھارت دونوں اےک شرےف ترےن شخصےت، اےک بے بدل فاضل، اےک زبردست مصنف، اےک غےر جانبدار مورخ اور اےک عالم با عمل کی خدمات سے محروم ہوگئے۔ اےسے اشخاص کہےں صدےوں مےں جاکر پےدا ہوتے ہےں اور جب تک زندہ رہتے ہےں اپنی زندگی کی درخشانی سے دنےا کو منور کرجاتے ہےں اور مرنے کے بعد بھی فےض پہنچاتے رہتے ہےں۔
 ماہرالقادری لکھتے ہےں کہ مولانا سےد سلےمان ندوی کے قلم نے دس بےس سال نہےں، پچاس سال تک دےن اور علم وادب کی گراں قدر خدمت انجام دی ہے، علامہ شبلی نعمانی کے سجادئہ علم وفضل کو انہی نے سنبھالا او ر اپنے استاد کی جانشےنی کا حق ادا کردےا، شبلی نعمانی نے لائق شاگرد کو مرتے دم وصےت کی تھی کہ سےرة النبی صلی اللہ علےہ وسلم کے کام کو پورا کرنا اور سےد صاحب مرحوم نے اس عظےم الشان کام کو اس خوبی کے ساتھ انجام دےا کہ وہ دےن واخلاق اور تارےخ ادب کا قابل فخر کارنامہ بن گےا اور اس طرح استاد اور شاگرد دونوں نے اپنی آخرت کے لئے نےکی اور ثواب کا ذخےرہ فراہم کرلےا (رحمہما اللہ وجزاہما خےرالجزائ)
 سےرة النبی کے مجلدات کے علاوہ ”ارض القرآن“، ”سےرت عائشہ“ اور ”خطبات مدارس“ سےد صاحب مرحوم کی معرکہ آرا تصانےف ہےں، دوسری چھوٹی چھوٹی کتابےں اور علمی اور تارےخی مضامےن بھی بڑے کام کی چےزےں ہےں، کمےونزم کے بارے مےں سےد صاحب مرحوم کا ےہ جملہ ےقےنا ضرب المثل بن کر رہے گا کہ ”ےہ (کمےونزم) وقت واحد مےں بادشاہ کو تخت سے اور خدا کو عرش سے اتار دےنا چاہتا ہے۔“
 سےد صاحب مرحوم کو اپنے استاد سے شعر وسخن کا جو ذوق ورثہ مےں ملا تھا، اسی ذوق نے ”عمر وخےام“ پر ان سے کتاب لکھوادی، اس قدر تحقےق اور تفصےل کے ساتھ کسی اےرانی ادےب اور تنقےد نگار نے بھی خےام پر غالباً کوئی کتاب نہےں لکھی۔ مجلہ ”معارف“ کو جو وقار، مرتبت اور اونچے علمی حلقوں مےں قبولےت حاصل ہوئی، وہ سب کچھ سےد صاحب مرحوم کی کامےاب ادارت کا ظہور تھا۔ حےات شبلی بھی سےد صاحب کی بلندپاےہ تصنےف ہے اور فن سےرت نگاری (بےوگرافی) پر معےاری کتاب ہے۔
 سےد صاحب قدس سرہ عربی زبان کے بڑے اچھے انشا پرداز تھے، انگرےزی بھی بقدر ضرورت ان کو آتی تھی، ارض القرآن کی تصنےف کے سلسلہ مےں تھوڑی سی عبرانی بھی سےکھ لی تھی اور فارسی دانی کا ےہ عالم تھا کہ علامہ اقبالؒ کے فارسی کلام کی غلطےوں پر گرفت کی اور ان کے بعض مشوروں کو اقبال نے قبول کرلےا، علامہ اقبال نے سےد صاحب مرحوم کو اےک بار لکھا تھا کہ مےری مثنوی پر نکلسن کی رائے آچکی ہے مگر مےں آپ کی رائے کا منتظر ہوں!
 سےد صاحبؒ نے اپنے تلامذہ کی جو جماعت چھوڑی ہے ان مےں سے بعض شاگرد اپنی جگر خود زندہ دبستان ہےں اور علمی دنےا مےں بڑی شہرت رکھتے ہےں! سےد صاحب کا ہمارے درمےان سے اٹھ جانا اےک علمی حادثہ ہی نہےں دےنی سانحہ بھی ہے۔ رئےس الاصرار مولانا محمد علی جوہر خلافت کے جس وفد کو لےکر انگلستان گئے تھے، سےد صاحب بھی اس کے اےک رکن تھے، اس سلسلہ مےں انہےں ےوروپ کی سےاحت کا بھی موقع مل گےا، ااےک ادےب، مورخ اور محقق کے لئے اس قسم کی سےر وسفر بہت ہی مفےد ثابت ہوتا ہے اور فکر ونظر مےں وسعت پےدا ہوجاتی ہے۔ آخر زمانہ مےں ےعنی وفات سے چند سال قبل حکےم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حلقہ ارادت مےں سےد صاحب مرحوم داخل ہوگئے تھے۔ ”ندوےت“ اور ”خانقاہےت“ کا ےہ امتزاج بھی دےدنی تھا!!
علامہ سےد سلےمان ندوی
  بدو شعور ہی سے جن اہل ِقلم اور ارباب علم کا مےں نے نام سنا ہے اور جن کی تصانےف اور مضامےن کا مےں نے اثر قبول کےا ہے ، سےد سلےمان ندوی رحمة اللہ علےہ بھی انہی مےں شامل ہےں ۔ اب سے کوئی اٹھارہ بےس سال پہلے کی بات ہے جب مےرا کلام رسالہ ”معارف مےں چھپا کرتا تھا، سےد صاحب مرحوم اس کے چونکہ مدےر تھے اس لئے مےں اپنا کلام انہی کی خدمت مےں بھےجتا تھا اور کارڈ پر دو چار سطروں مےں خط کی رسےد روانہ فرما دےا کرتے تھے ۔ اتنے بڑے آدمی کے قلم کی چند سطرےں بھی مےرے لئے بہت کچھ تھےں اور مےں حضرت سےدصاحب کے مکتوب گرامی کو بار بار پڑھا کرتا تھا ۔
  اےک بار اےسا ہوا کہ مےری اےک غزل مجلہ ”معارف “مےں اس طرح چھپی کہ ا سکے چند مصرعے بدلے ہوئے تھے ، مےں نے سےد صاحب مرحوم کی خدمت مےں عرےضہ بھےجا اور بڑے ادو کے ساتھ عرض کےا کہ مےں اپنی شاعری کو اصلاحسے بے نےاز نہےں سمجھتا بلکہ مےں تو ارباب ذوق کے مفےد مشورے شکرےہ کے ساتھ قبول کرلےا کرتاہوں ۔ لےکن آپ کے رسالہ مےں جو مےری غزل شائع ہوئی ہے اور اس کے جن مصرعوں پر اصلاح دی گئی ہے تو اس ”اصلاح “نے مےرے اصل شعروں کے تھوڑے بہت حسن کو بھی غارت کردےا ہے ۔ سےد صاحب نے اس کے جواب مےں تحرےر فرما کہ صاحب اس حک و اصلاح کے ذمہ دار ہےں مےں نے انہےں تاکےد کردی ہے اب اےسا نہ ہوگا ۔
  اےک بار حضرت سےد صاحب ( نور اللہ مرقدہ ¾) نے مجھے ”سےد ماہر القادری “لکھا مےں نے جواب مےں عرض مےں ” سےد “ بلکہ ”سادات کرام “کا نےاز مند اور حاشےہ بردار ہوں ، مگر آپ بھی معذور ہےں ۔المر ءےقےس علی نفسہ !
  غالبا اسی مےرے معروضہ کے جواب مےں سےد صاحب مرحوم نے تحرےر فرماےا کہ جن احباب سے اشتےاق کے باوجود ملاقات نہ ہوسکی ، ان مےں آپ بھی شامل ہےں ۔مگر روز اول کی ملاقات تو ثابت ہے ۔ مےں نے جواب دےا کہ آ نے مجھ ہےچمداں کے بارے مےں اپنے کرم سے جو کچھ ارقام فرماےا اس نے مےری آبرو بڑھائی ہے ۔
کلاہ گوشہ دہقاں بہ آفتاب رسےد
  اب رہی ” روزازل“کی ملاقات تو افسوس ہے کہ اس کی ےاد ذہنوں مےں محفوظ نہےں رہی ۔ حافظہ پر بہت کچھ زور ڈالنے کے بعد بھی سنہ کا ٹھےک طور پر تعےن نہےں کرسکتا غالبا ۷۳۹۱ءمےں حکومت حےدر آباد دکن کی طرف سے اےک عملی اور تارےخی کانفرنس منعقد ہوئی تھی ۔ بلدہ حےدر آباد کے ”باغ عام “ کا ہال جہاں اب وہاں کی اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے ۔کانفرنس مذکور کے لئے مخصوص تھا اور ہندوستان کے ہر صوبے کے نمائندے اس مےں شرےک ہوئے تھے ۔ ، مےں جب ”باغ عام “ پہنچا تو سےد صاحب مرحوم کانفرنس ہال سے نکل کر مسجد کی طرف آرہے تھے اور بہت سے اہل علم ان کے ساتھ ساتھ تھے ۔ سےد صاحب کے پہنچاننے مےں مجھے ذرا سی بھی دشواری نہےں ہوئی ۔ ان کے عمامے کے پےچ ، ان کا نورانی چہرہ ، اور ان ک باوقار رفتار بتارہی تھی کہ ” سےرة النبی “ کا مصنف ےہی ہے ۔ عصر کی نماز سےد صاحب مرحوم کے ساتھ ہی ادا کی ،مگر تعارف اور ملاقات کا وہاں کوئی موقعہ ہی نہ تھا ،بہت سے مشتاق اور عقےدت مند سےد صاحب کے ارد گرد تھے !مجھے اس کی مسرت تھی کہ جس کے لکھے ہوئے ہزاروں صفحے مےں پڑھ چکا ہوں اس عظےم شخصےت کو آج دےکھ بھی لےا ۔
  اس واقعہ کے کوئی چار سال بعد حےدر آباد دکن کی مشہور علمی درسگاہ ”نظام کالج “ کے شعبہ فارسی کی طرف سے اےک ادبی جلسہ کا انتظام کےا گےا ۔ نواب ظہےر ےار جنگ بہادر ( صدر المہام ) جلسہ کے صدر تھے ۔ مولانا سےد سلےمان ندوی مرحوم ان دنوں حےدر آباد تشرےف لائے ہوئے تھے۔ ان کی تشرےف آوری سے ” نظام کالج “ والوں نے بروقت فائدہ اٹھاےا اور سےد صاحب مرحوم کی جلسہ مےں شرکت کے لئے اراضی کرلےا ۔ سےد صاحب مرحوم نے عمر خےام کی زندگی اور شاعریپراےک بسےط تقرےر فرمائی ،مےں نے اسی جلسہ مےں اےک فارسی غزل سنائی !
  زمانہ بڑا گرےز پا واقع ہوا ہے ، بس ذار پلک جھپکی اور جگ بےت گئے ۔
  مےں ۲۴۹۱ءمےں حےدر آباد چھوڑ کر دہلی چلاےا آےا ، ےہ دور ہندوستان مےں بڑی سےاسی معرکہ آرائےوں کا دور تھا۔ ےہاں تک کہ ہندوستان تقسےم ہوگےا ۔ اور اس کے بعد جو خونرےز ہنگامے ہوئے وہ تارےخ کے اوراق پر ہی نہےں بلکہ مادر گےتی کی پےشانی پر اپنا خونےں نقش چھوڑ گئے ۔ہندوستان کے مسلمان آگاور خون کے جس خوفناک طوفان سے گزرے ہےں وہ داستان بڑی ہی درد ناک ہے ۔
  وطن مےں جب حالات انتہائی خطرناک ہوگئے تو مجھے پاکستان آنا پڑااور ےہاں آئے ہوئے بھی چھ سال ہوگئے ۔ اپرےل ۹۴ ءمےں ”فاران “کا پہلا پرچہ نکلا ، اس زمانہ مےں علامہ سےد سلےمان ندوی علےہ الرحمہ کا قےام بھوپال مےں تھا ۔ مےں نے مضمون کی درخواست کی ۔ سےد صاحب مرحوم نے پےرانہ سالی کی معذرت کے ساتھ محبت آمےز جواب دےا ،پھر اس کے تقرےبا تےن سال بعد اللہ کا کرنا اےسا ہوا کہ خود سےد صاحب کراچی چلے آئے اور چلے کےا آئے ےہاں آکر بس گئے !
  اب تک سےد صاحب مرحوم سے خط و کتابت کے ذرےعہ شناسائی تھی ےا اےک دوبار بہت ہی مختصر سی ملاقات ہوئی تھی ۔ حصول نےاز کی سعادت حقےقت مےں ےہاں کراچی مےں حاصل ہوئی ۔ ڈار منزل ( سےد صاحب کی قےام گاہ ) عموما مےں عصر کے وقت جاےا کرتا تھا ۔ سےد صاحب مرحوم جب کراچی تشرےف لائے ہےں ۔اور مےں پہل بار حاضر ہوا ہوں تو بڑے تپاک اور انتہائی شفقت کے ساتھ ملے ۔ اس کے غالبا تےسری ملاقات مےں اےک چھوٹی سی کاپی نکالی ،ےہ ان کی بےاض تھی ، بےاض کھول کر اپنی دو تےن غزلےں مجھے سنائےں ۔
  سےدصاحب قدس سرہ کی خدمت مےں مےری حاضری فےض و استفادہ کی غرض سے ہوتی تھی ، اےک بار مےں نے درےافت کےا کہ مےں صبح کو نماز فجر کے بعد قرآن شرےف پڑھ کر حضور نبی کرےم علےہ الصلوة و التسلےم کی روح مقدس اور دوسرے بزرگوں اور اپنے عزےزوں کی ارواح کو ثواب پہنچاےا کرتا ہوں ، کےا سنت نبوی ےا آثار صحابہ مےں اس کے لئے کوئی نظےر ملتی ہے ؟ اس پرسےد صاحب مرحوم نے مسکرا کر فرماےا کہ مےں بھی ےہی کرتا ہوں مگر اس کے لئے لوئی سند مجھے نہےں ملی ۔ ےوں سمجھو کہ ےہ ثواب ”بےنک “مےں جمع ہوتا رہتا ہے۔ ”جماعت اسلامی “کے سلسلہ مےں دو تےن بار کافی طوےل بحث چھڑ گئی او رمےں نے سخت گفتگو کی ، مےں مدافعت حق کے جوش مےں ےہ تک بھول گےا کہ کتنی بڑی شخصےت سے ہم کلام ہوں ، مگر سےد صاحب مرحوم نے مےری کڑی تنقےد کا برا نہےں مانا ، ےہ ان کی وسعت ظرف عالی حوصلگی اور اپنے خور دوں اور نےاز مندوں کے ساتھ عفو و در گذر کی دلےل تھی ۔
  اےک بار ”وحدت الوجود“ پر وہ مجھے بعض بنےادی نکات سمجھانے لگے، مےں خاموشی کے ساتھ سنتا رہا، مگر پھر اےسے لطائف درمےان مےں آگئے کہ مجھ سے خاموش نہ رہا گےا، مےں نے کئی بار اعتراض کےا اس پر سےد صاحب مرحوم بولے: ”تم نے کہےں عشق بھی کےا ہے....؟“ مےں شرماکر چپ ہوگےا.... حالاںکہ:
کس زبانِ چشم خوباں را نہ می داند چومن
روزگارے اےں غزالاں را شبانی کردہ ام
  سےد صاحب مرحوم اپنے زہد وورع اور علمی جلالت کے باوجود شگفتہ مزاج بھی تھے، اسلامےہ کالج (کراچی) مےں اےک ادبی اجتماع تھا، اور عصرانہ کابھی انتظام تھا، چائے پےنے کے لئے جب ہال مےں پہنچے تو وہاں کالج کی طالبات بھی تھےں، سےد صاحب مرحوم نے ےہ رنگ دےکھ کر مجھ سے فرماےا: ”اس زمانہ مےں عورت کسی جگہ پےچھا نہےں چھوڑتی“۔
  سےد صاحبؒ نے اپنے تلامذہ کی جو جماعت چھوڑی ہے اُن مےں سے بعض شاگرد اپنی جگہ خود دبستان ہےں اور علمی دنےا مےں بڑی شہرت رکھتے ہےں! سےد صاحب کا ہمارے درمےان سے اُٹھ جانا اےک علمی حادثہ ہی نہےں دےنی سانحہ بھی ہے۔
٭٭٭
 مولانا سےد سلےمان ندوی کے قلم نے دس بےس سال نہےں، پچاس سال تک دےن اور علم وادب کی گرانقدر خدمت انجام دی ہے، علامہ شبلی نعمانی کے سجادئہ علم وفضل کو انہی نے سنبھالا اور اپنے استاد کی جانشےنی کا حق ادا کردےا، شبلی نعمانی نے لائق شاگرد کو مرتے دم وصےت کی تھی کہ سےرة النبی کے کام کو پورا کرنا اور سےد صاحب مرحوم نے اس عظےم الشان کام کو اس خوبی کے ساتھ انجام دےا کہ وہ دےن واخلاق اور تارےخ وادب کا قابل فخر کارنامہ بن گےا اور اس طرح استاد اور شاگرد دونوں نے اپنی آخرت کے لئے نےکی اور ثواب کا ذخےرہ فراہم کرلےا (رحمہما اللہ تعالیٰ وجزاہما اللہ خےرالجزائ)
 سےرة النبی کے مجلدات کے علاوہ ”ارض القرآن“ ”سےرت عائشہؓ“ اور ”خطبات مدارس“ سےد صاحب مرحوم کی معرکہ آراءتصانےف ہےں، دوسری چھوٹی چھوٹی کتابےں اور علمی اور تارےخی مضامےن بھی بڑے کام کی چےزےں ہےں! کمےونزم کے بارے مےں سےد صاحب مرحوم کا ےہ جملہ ےقےنا ضرب المثل بن کر رہے گا کہ ”ےہ کمےونزم“ وقت واحد مےں بادشاہ کو تخت سے اور خدا کو عرش سے اُتار دےنا چاہتا ہے“۔
 سےد صاحب مرحوم کو اپنے اُستاب سے شعر وسخن کا جو ذوق ورثہ مےں ملا تھا، اُسی ذوق نے ”عمر وخےام“ پر اُن سے کتاب لکھوادی، اس قدر تحقےق اور تفصےل کے ساتھ کسی اےرانی ادےب اور تنقےد نگار نے بھی خےام پر غالباً کوئی کتاب نہےں لکھی۔ مجلہ ”معارف“ کو جو وقار، مرتبت اور اُونچے علمی حلقوں مےں قبولےت حاصل ہوئی، وہ سب کچھ سےد صاحب مرحوم کی کامےاب اور ادارت کا ظہور تھا۔ حےات شبلی بھی سےد صاحب کی بلندپاےہ تصنےف ہے اور فن سےرت نگاری (بےوگرافی) پر معےاری کتاب ہے۔


Tuesday, September 20, 2011

Maulana Abul Kalam Muhiyuddin Ahmed

ابو الکلام آزاد
ابو الکلام آزاد
ابو الکلام آزاد
ادیب
پیدائشی نام محی الدین احمد
ولادت 1888ء مکہ مکرمہ
وفات 22 فروری، 1958ء
اصناف ادب نثر
دستخط Maulanaazad.JPG
  • ابو الکلام آزاد
مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میںہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔
مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں کانگرس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔ آپ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ 22 فروری 1958ء کو انتقال ہوا۔

[

Abul Kalam Azad

From Wikipedia, the free encyclopedia
Jump to: navigation, search
Maulana Abul Kalam Azad
Minister of Education
In office
15 August 1947 – 1958
Prime Minister Jawahar Lal Nehru
Personal details
Born 11 November 1888(1888-11-11)
Makkah
Died 22 February 1958(1958-02-22) (aged 69)
Delhi, India
Maulana Abul Kalam Muhiyuddin Ahmed (Urdu: مولانا ابوالکلام محی الدین احمد آزاد) was an Indian Muslim scholar and a senior political leader of the Indian independence movement, who lived from 11 November 1888 – 22 February 1958. He was one of the most prominent Muslim leaders to support Hindu-Muslim unity, opposing the partition of India on communal lines. Following India's independence, he became the first Minister of Education in the Indian government. He is also known for having predicted the future military rule and partition of Pakistan before its independence.[1] He was posthumously awarded India's highest civilian award, the Bharat Ratna in 1992.[2] He is commonly remembered as Maulana Azad; he had adopted Azad (Free) as his pen name. His contribution to establishing the education foundation of India is recognised by celebrating his birthday as National Education Day across India.
As a young man, Azad composed poetry in Urdu as well as treatises on religion and philosophy. He rose to prominence through his work as a journalist, publishing works critical of the British Raj and espousing the causes of Indian nationalism. Azad became the leader of the Khilafat Movement during which he came into close contact with Indian leader Mahatma Gandhi. Azad became an enthusiastic supporter of Gandhi's ideas of non-violent civil disobedience, and worked actively to organise the Non-cooperation movement in protest of the 1919 Rowlatt Acts. Azad committed himself to Gandhi's ideals, including promoting Swadeshi (Indigenous) products and the cause of Swaraj (Self-rule) for India. He would become the youngest person to serve as the President of the Indian National Congress in 1923.
Azad was one of the main organisers of the Dharasana Satyagraha in 1931, and emerged as one of the most important national leaders of the time, prominently leading the causes of Hindu-Muslim unity as well as espousing secularism and socialism.[3] He served as Congress President from 1940 to 1945, during which the Quit India rebellion was launched and Azad was imprisoned with the entire Congress leadership for three years. Azad became the most prominent Muslim opponent of the demand for a separate Muslim state of Pakistan and served in the interim national government. Amidst communal turmoil following the partition of India, he worked for religious harmony. As India's Education Minister, Azad oversaw the establishment of a national education system with free primary education and modern institutions of higher education. He is also credited with the establishment of the Indian Institutes of Technology and the foundation of the University Grants Commission, an important institution to supervise and advance the higher education in the nation.[3]

Contents

Early life

Azad's family descended from a line of eminent Ulama or scholars of Islam. His mother was of Arab descent, the daughter of Shaikh Muhammad Zahir Watri, and his father, Maulana Khairuddin was, then living in Bengal. The family lived in the Bengal region until Maulana Khairuddin left India during the First Indian War of Independence and settled in Mecca, the holiest city in Islam, where he met his wife.[4][5] Azad mastered several languages, including Pashtu Urdu, Arabic, Hindko, Persian, Bangla and Hindi. He was also trained in the subjects of Hanafi fiqh, shariat, mathematics, philosophy, world history and science by reputed tutors hired by his family. An avid and determined student, the precocious Azad was running a library, a reading room, a debating society before he was twelve, wanted to write on the life of Ghazali at twelve, was contributing learned articles to Makhzan (the best known literary magazine of the day) at fourteen,[6] was teaching a class of students, most of whom were twice his age, when he was merely fifteen and succeeded in completing the traditional course of study at the young age of sixteen, nine years ahead of his contemporaries, and brought out a magazine at the same age.[7] In fact, in the field of journalism, he was publishing a poetical journal (Nairang-e-Aalam)[8] and was already an editor of a weekly (Al-Misbah), in 1900, at the age of twelve and, in 1903, brought out a monthly journal, Lissan-us-Sidq, which soon gained popularity.[9] At the age of thirteen, he was married to a young Muslim girl, Zuleikha Begum.[5] Azad compiled many treatises interpreting the Qur'an, the Hadith, and the principles of Fiqh and Kalam.[4]
A young man, Azad was also exposed to the modern intellectual life of Kolkata, the then capital of British-ruled India and the centre of cultural and political life. He began to doubt the traditional ways of his father and secretly diversified his studies. Azad learned English through intensive personal study and began learning Western philosophy, history and contemporary politics by reading advanced books and modern periodicals. Azad grew disillusioned with Islamic teachings and was inspired by the modern views of Muslim educationalist Sir Syed Ahmed Khan, who had promoted rationalism. Increasingly doubtful of religious dogma, Azad entered a period of self-described "atheism" and "sinfulness" that lasted for almost a decade.[5][10]

Revolutionary and journalist

Azad developed political views considered radical for most Muslims of the time and became a full-fledged Indian nationalist.[4] He fiercely criticised the British for racial discrimination and ignoring the needs of common people across India. He also criticised Muslim politicians for focusing on communal issues before the national interest and rejected the All India Muslim League's communal separatism. Azad developed curiosity and interest in the pan-Islamic doctrines of Jamal al-Din al-Afghani and visited Afghanistan, Iraq, Egypt, Syria and Turkey. But his views changed considerably when he met revolutionary activists in Iraq and was influenced by their fervent anti-imperialism and nationalism.[4] Against common Muslim opinion of the time, Azad opposed the partition of Bengal in 1905 and became increasingly active in revolutionary activities, to which he was introduced by the prominent Hindu revolutionaries Sri Aurobindo and Shyam Sundar Chakravarthy. Azad initially evoked surprise from other revolutionaries, but Azad won their praise and confidence by working secretly to organise revolutionaries activities and meetings in Bengal, Bihar and Mumbai (then Bombay).[4]
Azad's education had been shaped for him to become a cleric, but his rebellious nature and affinity for politics turned him towards journalism. He established an Urdu weekly newspaper in 1912 called Al-Hilal and openly attacked British policies while exploring the challenges facing common people. Espousing the ideals of Indian nationalism, Azad's publications were aimed at encouraging young Muslims into fighting for independence and Hindu-Muslim unity.[4] His work helped improve the relationship between Hindus and Muslims in Bengal, which had been soured by the controversy surrounding the partition of Bengal and the issue of separate communal electorates.
With the onset of World War I, the British stiffened censorship and restrictions on political activity. Azad's Al-Hilal was consequently banned in 1914 under the Press Act. Azad started a new journal, the Al-Balagh, which increased its active support for nationalist causes and communal unity. In this period Azad also became active in his support for the Khilafat agitation to protect the position of the Sultan of Ottoman Turkey, who was the caliph for Muslims worldwide. The Sultan had sided against the British in the war and the continuity of his rule came under serious threat, causing distress amongst Muslim conservatives. Azad saw an opportunity to energise Indian Muslims and achieve major political and social reform through the struggle. With his popularity increasing across India, the government outlawed Azad's second publication under the Defence of India Regulations Act and arrested him. The governments of the Bombay Presidency, United Provinces, Punjab and Delhi prohibited his entry into the provinces and Azad was moved to a jail in Ranchi, where he was incarcerated until 1 January 1920.[10]

Non-cooperation


Khilafat movement procession.
Upon his release, Azad returned to a political atmosphere charged with sentiments of outrage and rebellion against British rule. The Indian public had been angered by the passage of the Rowlatt Acts in 1919, which severely restricted civil liberties and individual rights. Consequently, thousands of political activists had been arrested and many publications banned. The killing of unarmed civilians at Jallianwala Bagh in Amritsar on 13 April 1919 had provoked intense outrage all over India, alienating most Indians, including long-time British supporters from the authorities. The Khilafat struggle had also peaked with the defeat of the Ottoman Empire in World War I and the raging Turkish War of Independence, which had made the caliphate's position precarious. India's main political party, the Indian National Congress came under the leadership of Mahatma Gandhi, who had aroused excitement all over India when he led the farmers of Champaran and Kheda in a successful revolt against British authorities in 1918. Gandhi organised the people of the region and pioneered the art of Satyagraha — combining mass civil disobedience with complete non-violence and self-reliance.
Taking charge of the Congress, Gandhi also reached out to support the Khilafat struggle, helping to bridge Hindu-Muslim political divides. Azad and the Ali brothers warmly welcomed Congress support and began working together on a programme of non-cooperation by asking all Indians to boycott British-run schools, colleges, courts, public services, the civil service, police and military. Non-violence and Hindu-Muslim unity were universally emphasized, while the boycott of foreign goods, especially clothes were organised. Azad joined the Congress and was also elected president of the All India Khilafat Committee. Although Azad and other leaders were soon arrested, the movement drew out millions of people in peaceful processions, strikes and protests.
This period marked a transformation in Azad's own life. Along with fellow Khilafat leaders Dr. Mukhtar Ahmad Ansari, Hakim Ajmal Khan and others, Azad grew personally close to Gandhi and his philosophy. The three men founded the Jamia Millia Islamia in Delhi as an institution of higher education managed entirely by Indians without any British support or control. Both Azad and Gandhi shared a deep passion for religion and Azad developed a close friendship with him. He adopted the Prophet Muhammad's ideas by living simply, rejecting material possessions and pleasures. He began to spin his own clothes using khadi on the charkha, and began frequently living and participating in the ashrams organised by Gandhi.[citation needed] Becoming deeply committed to ahinsa (non-violence) himself, Azad grew close to fellow nationalists like Jawaharlal Nehru, Chittaranjan Das and Subhash Chandra Bose.[10] He strongly criticised the continuing suspicion of the Congress amongst the Muslim intellectuals from the Aligarh Muslim University and the Muslim League.
The rebellion began a sudden decline when with rising incidences of violence; a nationalist mob killed 22 policemen in Chauri Chaura in 1922. Fearing degeneration into violence, Gandhi asked Indians to suspend the revolt and undertook a five day fast to repent and encourage others to stop the rebellion. Although the movement stopped all over India, several Congress leaders and activists were disillusioned with Gandhi. The following year, the caliphate was overthrown by Mustafa Kemal Atatürk and the Ali brothers grew distant and critical of Gandhi and the Congress. Azad's close friend Chittaranjan Das co-founded the Swaraj Party, breaking from Gandhi's leadership. Despite the circumstances, Azad remained firmly committed to Gandhi's ideals and leadership. In 1923, he became the youngest man to be elected Congress President. Azad led efforts to organise the Flag Satyagraha in Nagpur. Azad served as president of the 1924 Unity Conference in Delhi, using his position to work to re-unite the Swarajists and the Khilafat leaders under the common banner of the Congress. In the years following the movement, Azad travelled across India, working extensively to promote Gandhi's vision, education and social reform.

Congress leader

Azad became an important national leader, and served on the Congress Working Committee and in the offices of general secretary and president many times. The political environment in India re-energised in 1928 with nationalist outrage against the Simon Commission appointed to propose constitutional reforms. The commission included no Indian members and did not even consult Indian leaders and experts. In response, the Congress and other political parties appointed a commission under Motilal Nehru to propose constitutional reforms from Indian opinions. In 1928, Azad endorsed the Nehru Report, which was criticised by the Ali brothers and Muslim League politician Muhammad Ali Jinnah. Azad endorsed the ending of separate electorates based on religion, and called for an independent India to be committed to secularism. At the 1928 Congress session in Guwahati, Azad endorsed Gandhi's call for dominion status for India within a year. If not granted, the Congress would adopt the goal of complete political independence for India. Despite his affinity for Gandhi, Azad also drew close to the young radical leaders Jawaharlal Nehru and Subhash Bose, who had criticised the delay in demanding full independence. Azad developed a close friendship with Nehru and began espousing socialism as the means to fight inequality, poverty and other national challenges. Azad Decided the name of Muslim political party Majlis-e-Ahrar-ul-Islam. He was also a frined of Syed Ata Ullah Shah Bukhari founder of All India Majlis-e-Ahrar. When Gandhi embarked on the Dandi Salt March that inaugurated the Salt Satyagraha in 1930, Azad organised and led the nationalist raid, albeit non-violent on the Dharasana salt works in order to protest the salt tax and restriction of its production and sale. The biggest nationalist upheaval in a decade, Azad was imprisoned along with millions of people, and would frequently be jailed from 1930 to 1934 for long periods of time. Following the Gandhi-Irwin Pact in 1934, Azad was amongst millions of political prisoners released. When elections were called under the Government of India Act 1935, Azad was appointed to organise the Congress election campaign, raising funds, selecting candidates and organising volunteers and rallies across India.[10] Azad had criticised the Act for including a high proportion of un-elected members in the central legislature, and did not himself contest a seat. He again declined to contest elections in 1937, and helped head the party's efforts to organise elections and preserve coordination and unity amongst the Congress governments elected in different provinces.[10]
At the 1936 Congress session in Lucknow, Azad was drawn into a dispute with right-wing Congressmen Sardar Vallabhbhai Patel, Dr. Rajendra Prasad and Chakravarthi Rajagopalachari regarding the espousal of socialism as the Congress goal. Azad had backed the election of Nehru as Congress President, and supported the resolution endorsing socialism. In doing so, he aligned with Congress socialists like Nehru, Subhash Bose and Jayaprakash Narayan. Azad also supported Nehru's re-election in 1937, at the consternation of many conservative Congressmen. Azad supported dialogue with Jinnah and the Muslim League between 1935 and 1937 over a Congress-League coalition and broader political cooperation. Less inclined to brand the League as obstructive, Azad nevertheless joined the Congress's vehement rejection of Jinnah's demand that the League be seen exclusively as the representative of Indian Muslims.

Quit India

In 1938, Azad served as an intermediary between the supporters of Gandhi and the Congress faction led by Congress President Subhash Bose, who criticised Gandhi for not launching another rebellion against the British and sought to move the Congress away from Gandhi's leadership. Azad stood by Gandhi with most other Congress leaders, but reluctantly endorsed the Congress's exit from the assemblies in 1939 following the inclusion of India in World War II. Nationalists were infuriated that the viceroy had entered India into the war without consulting national leaders. Although willing to support the British effort in return for independence, Azad sided with Gandhi when the British ignored the Congress overtures. Azad's criticism of Jinnah and the League intensified as Jinnah called Congress rule in the provinces as "Hindu Raj," calling the resignation of the Congress ministries as a "Day of Deliverance" for Muslims. Jinnah and the League's separatist agenda was gaining popular support amongst Muslims. Muslim religious and conservative leaders criticised Azad as being too close to the Congress and placing politics before faith.[10] As the Muslim League adopted a resolution calling for a separate Muslim state in its session in Lahore in 1940, Azad was elected Congress President in its session in Ramgarh. Speaking vehemently against Jinnah's Two-Nation Theory — the notion that Hindus and Muslims were distinct nations — Azad lambasted religious separatism and exhorted all Muslims to preserve a united India, as all Hindus and Muslims were Indians who shared deep bonds of brotherhood and nationhood. In his presidential address, Azad said:
"...Full eleven centuries have passed by since then. Islam has now as great a claim on the soil of India as Hinduism. If Hinduism has been the religion of the people here for several thousands of years Islam also has been their religion for a thousand years. Just as a Hindu can say with pride that he is an Indian and follows Hinduism, so also we can say with equal pride that we are Indians and follow Islam. I shall enlarge this orbit still further. The Indian Christian is equally entitled to say with pride that he is an Indian and is following a religion of India, namely Christianity."[10]

Azad, Patel and Gandhi at an AICC meeting in Bombay, 1940.
In face of increasing popular disenchantment with the British across India, Gandhi and Patel advocated an all-out rebellion demanding immediate independence. The situation had grown precarious as the Japanese conquered Burma and approached India's borders, which left Indians insecure but resentful of the British inability to protect India. Azad was wary and skeptical of the idea, aware that India's Muslims were increasingly looking to Jinnah and had supported the war. Feeling that a struggle would not force a British exit, Azad and Nehru warned that such a campaign would divide India and make the war situation even more precarious. Intensive and emotional debates took place between Azad, Nehru, Gandhi and Patel in the Congress Working Committee's meetings in May and June 1942. In the end, Azad became convinced that decisive action in one form or another had to be taken, as the Congress had to provide leadership to India's people and would lose its standing if it did not.
Supporting the call for the British to "Quit India," Azad began exhorting thousands of people in rallies across the nation to prepare for a definitive, all-out struggle. As Congress President, Azad travelled across India and met with local and provincial Congress leaders and grass-roots activists, delivering speeches and planning the rebellion. Despite their previous differences, Azad worked closely with Patel and Dr. Rajendra Prasad to make the rebellion as effective as possible. On 7 August 1942 at the Gowalia Tank in Mumbai, Congress President Azad inaugurated the struggle with a vociferous speech exhorting Indians into action. Just two days later, the British arrested Azad and the entire Congress leadership. While Gandhi was incarcerated at the Aga Khan Palace in Pune, Azad and the Congress Working Committee were imprisoned at a fort in Ahmednagar, where they would remain under isolation and intense security for nearly four years. Outside news and communication had been largely prohibited and completely censored. Although frustrated at their incarceration and isolation, Azad and his companions attested to feeling a deep satisfaction at having done their duty to their country and people.[11]
Azad occupied the time playing bridge and acting as the referee in tennis matches played by his colleagues. In the afternoons, Azad began working on his classic Urdu work, the Ghubhar-i-Khatir. Sharing daily chores, Azad also taught the Persian and Urdu languages, as well as Indian and world history to several of his companions. The leaders would generally avoid talking of politics, unwilling to cause any arguments that could exacerbate the pain of their imprisonment. However, each year on 26 January, the leaders would gather to remember their cause and pray together. Azad, Nehru and Patel would briefly speak about the nation and the future. Azad and Nehru proposed an initiative to forge an agreement with the British in 1943. Arguing that the rebellion had been mis-timed, Azad attempted to convince his colleagues that the Congress should agree to negotiate with the British and call for the suspension of disobedience if the British agreed to transfer power. Although his proposal was overwhelmingly rejected, Azad and a few others agreed that Gandhi and the Congress had not done enough. When they learnt of Gandhi holding talks with Jinnah in Mumbai in 1944, Azad criticised Gandhi's move as counter-productive and ill-advised.[12]

Partition of India


Patel, Maulana Azad, Jivatram Kripalani and other Congressmen at Wardha.
With the end of the war, the British agreed to transfer power to Indian hands. All political prisoners were released in 1946 and Azad led the Congress in the elections for the new Constituent Assembly of India, which would draft India's constitution. He headed the delegation to negotiate with the British Cabinet Mission, in his sixth year as Congress President. While attacking Jinnah's demand for Pakistan and the mission's proposal of 16 June 1946 that envisaged the partition of India, Azad became a strong proponent of the mission's earlier proposal of 16 May. The proposal advocated a federation with a weak central government and great autonomy for the provinces. Additionally, the proposal called for the "grouping" of provinces on religious lines, which would informally band together the Muslim-majority provinces. While Gandhi and others were suspicious of this clause, Azad argued that the Jinnah's demand for Pakistan would be buried and the concerns of the Muslim community would be assuaged.[13] Under Azad and Patel's backing, the Working Committee approved the resolution against Gandhi's advice. Jawaharlal Nehru replaced Azad as Congress President and led the Congress into the interim government. Azad was appointed to head the Department of Education. However, Jinnah's Direct Action Day agitation for Pakistan, launched on 16 August sparked communal violence across India. Thousands of people were killed as Azad travelled across Bengal and Bihar to calm the tensions and heal relations between Muslims and Hindus. Despite Azad's call for Hindu-Muslim unity, Jinnah's popularity amongst Muslims soared and the League entered a coalition with the Congress in December, but continued to boycott the constituent assembly.
Azad had grown increasingly hostile to Jinnah, who had described him as the "Muslim Lord Haw-Haw" and a "Congress Showboy."[14] Despite being a learned scholar of Islam and a Maulana, Azad had been assailed by Muslim religious leaders for his commitment to nationalism and secularism[dubious ], which were deemed un-Islamic.[citation needed] Muslim League politicians accused Azad of allowing Muslims to be culturally and politically dominated by the Hindu community. Azad continued to proclaim his faith in Hindu-Muslim unity:[15]
"I am proud of being an Indian. I am part of the indivisible unity that is Indian nationality. I am indispensable to this noble edifice and without me this splendid structure is incomplete. I am an essential element, which has gone to build India. I can never surrender this claim."
Amidst more incidences of violence in early 1947, the Congress-League coalition struggled to function. The provinces of Bengal and Punjab were to be partitioned on religious lines, and on 3 June 1947 the British announced a proposal to partition India on religious lines, with the princely states free to choose between either dominion. The proposal was hotly debated in the All India Congress Committee, with Muslim leaders Saifuddin Kitchlew and Khan Abdul Ghaffar Khan expressing fierce opposition. Azad privately discussed the proposal with Gandhi, Patel and Nehru, but despite his opposition was unable to deny the popularity of the League and the unworkability of any coalition with the League. Faced with the serious possibility of a civil war, Azad abstained from voting on the resolution, remaining silent and not speaking throughout the AICC session, which ultimately approved the plan.[16]

Post-Independence

India's partition and independence on 15 August 1947 brought with it a scourge of violence that swept the Punjab, Bengal,Bihar, Delhi and many other parts of India. Millions of Hindus and Sikhs fled the newly created Pakistan for India, and millions of Muslims fled for West Pakistan and East Pakistan, created out of East Bengal. Violence claimed the lives of an estimated one million people. Azad took up responsibility for the safety of Muslims in India, touring affected areas in Bengal, Bihar, Assam and the Punjab, guiding the organisation of refugee camps, supplies and security. Azad gave speeches to large crowds encouraging peace and calm in the border areas and encouraging Muslims across the country to remain in India and not fear for their safety and security. Focusing on bringing the capital of Delhi back to peace, Azad organised security and relief efforts, but was drawn into a dispute with the Deputy Prime Minister and Home Minister Sardar Vallabhbhai Patel when he demanded the dismissal of Delhi's police commissioner, who was a Sikh accused by Muslims of overlooking attacks and neglecting their safety.[17] Patel argued that the commissioner was not biased, and if his dismissal was forced it would provoke anger amongst Hindus and Sikhs and divide the city police. In Cabinet meetings and discussions with Gandhi, Patel and Azad clashed over security issues in Delhi and Punjab, as well as the allocation of resources for relief and rehabilitation. Patel opposed Azad and Nehru's proposal to reserve the houses vacated by Muslims who had departed for Pakistan for Muslims in India displaced by the violence.[17] Patel argued that a secular government could not offer preferential treatment for any religious community, while Azad remained anxious to assure the rehabilitation of Muslims in India.
Maulana Azad had been appointed India's first Minister for Education and served in the Constituent Assembly to draft India's constitution. Azad's persuasion was instrumental in obtaining the approval of Muslim representatives to end the communal electorates, and was a forceful advocate of enshrining the principle of secularism, religious freedom and equality for all Indians. He supported provisions for Muslim citizens to make avail of Muslim personal law in courts.[18]
Azad remained a close confidante, supporter and advisor to Prime Minister Nehru, and played an important role in framing national policies. Azad masterminded the creation of national programmes of school and college construction and spreading the enrollment of children and young adults into schools, in order to promote universal primary education. Elected to the lower house of the Indian Parliament, the Lok Sabha in 1952 and again in 1957, Azad supported Nehru's socialist economic and industrial policies, as well as the advancing social rights and economic opportunities for women and underprivileged Indians. In 1956, he served as president of the UNESCO General Conference held in Delhi. Azad spent the final years of his life focusing on writing his book India Wins Freedom, an exhaustive account of India's freedom struggle and its leaders, which was published in 1957.
As India's first Minister of Education, he emphasized on educating the rural poor and girls. As Chairman of the Central Advisory Board of Education, he gave thrust to adult illiteracy, universal primary education, free and compulsory for all children up to the age of 14, girl’s education, and diversification of secondary education and vocational training.[19] Addressing the conference on All India Education on January 16, 1948, Maulana Azad emphasized,[19]
“We must not for a moment forget, it is a birth right of every individual to receive at least the basic education without which he cannot fully discharge his duties as a citizen.”
He oversaw the setting up of the Central Institute of Education,Delhi which later became the Department of Education of the University of Delhi as “a research centre for solving new educational problems of the country”.[20] Under his leadership, the Ministry of Education established the first Indian Institute of Technology in 1951 and the University Grants Commission in 1953.,[21][22] He also laid emphasis on the development of the Indian Institute of Science, Bangalore and the Faculty of Technology of the Delhi University.[23] He foresaw a great future in the IITs for India:[23]
"I have no doubt that the establishment of this Institute will form a landmark in the progress of higher technological education and research in the country."

Criticism

During his life and in contemporary times, Maulana Azad has been criticised for not doing enough to prevent the partition of India. He was condemned by the advocates of Pakistan and by religious Muslims, especially of the Deobandi order for his perceived affinity and proximity to Hindus.[15][dubious ] During and after partition, Azad was criticised for not doing enough for Muslim security and political rights in independent India.

Legacy and Influence

Azad is remembered as amongst the leading Indian nationalists of his time. His firm belief in Hindu-Muslim unity earned him the respect of the Hindu community and he still remains one of the most important symbols of communal harmony in modern India. His work for education and social upliftment in India made him an important influence in guiding India's economic and social development.
The Ministry of Minority Affairs of the central Government of India setup the Maulana Azad Education Foundation in 1989 on the occasion of his birth centenary to promote education amongst educationally backward sections of the Society.[24] The Ministry also provides the Maulana Abul Kalam Azad National Fellowship, an integrated five year fellowship in the form of financial assistance to students from minority communities to pursue higher studies such as M. Phil and Ph.D.[25]
Numerous institutions across India have also been named in his honor. Some of them are the Maulana Azad Medical College in New Delhi, the Maulana Azad National Institute of Technology in Bhopal, the Maulana Azad National Urdu University in Hyderabad,Maulana Azad Centre for Elementary and Social Education (MACESE Delhi University) and the Maulana Azad College in Kolkata. He is celebrated as one of the founders and greatest patrons of the Jamia Millia Islamia. Azad's tomb is located next to the Jama Masjid in Delhi. In recent years great concern has been expressed by many in India over the poor maintenance of the tomb.[15] On 16 November 2005 the Delhi High Court ordered that the tomb of Maulana Azad in New Delhi be renovated and restored as a major national monument. Azad's tomb is a major landmark and receives large numbers of visitors annually.[26]
Jawaharlal Nehru referred to him as Mir-i- Karawan (the caravan leader), "a very brave and gallant gentleman, a finished product of the culture that, in these days, pertains to few".[15] “The Emperor of learning" remarked Mahatma Gandhi about Azad counting him as "a person of the calibre of Plato, Aristotle and Pythagorus.” [19]
His Birthday, November 11 is celebrated as National Education Day in India

References

  • Maulana Azad's commentary on the Qur'an - Tarjuman al-Quran
  • India Wins Freedom, from Orient Longman Book-Institute
  • Ghubar-e-Khatir (Sallies of the Mind)
  • Tazkirah
  • Die politische Willensbildung in Indien 1900-1960; 1965 von Dietmar Rothermund
  • Life and Works of Maulana Abul Kalam Azad, from Ravindra Kumar, published by Atlantic Publishers & Distributors, 1991
  • Maulana Abul Kalam Azad, by Mahadev Haribhai Desai
  • The educational ideas of Maulana Abul Kalam Azad, by G. Rasool Abduhu, published by Sterling Publishers, 1973
  • India's Maulana Abul Kalam Azad, by Abulkalam Azad, Syeda Saiyidain Hameed, Mujib Rizvi, Sughra Mahdi, published by Indian Council for Cultural Relations, 1990
  • Maulana Azad ek Muttala by Hakim Syed Zillur Rahman, Jawahar aur Azad, Edited by Professor Abdul Qavi Dasnavi, Saifia College, Bhopal, 1990.
  • Maulana Azad Aur Bhopal by Hakim Syed Zillur Rahman, Fikro Nazar (Maulana Azad Number), Aligarh Muslim University, Aligarh, 1989, p. 107-112.
  • Gandhi, R (1990). Patel: A Life. Navajivan, Ahmedabad. 
  • Pattabhi, Sitaramayya (1946). Feathers & Stones "my study windows". Padma Publications,. 
  • Azad, Abul Kalam (1958 (reprint: 1989)). India Wins Freedom. Stosius Inc/Advent Books Division. ISBN 978-0-86131-913-8. 
  • Nandurkar, G. M. (1981). Sardar's letters, mostly unknown. Sardar Vallabhbhai Patel Smarak Bhavan,. 

Notes

  1. ^ Maulana Abul Kalam Azad: The Man Who Knew The Future Of Pakistan Before Its Creation (New Age Islam)
  2. ^ "Padma Awards Directory (1954-2007)". Ministry of Home Affairs. http://www.mha.nic.in/pdfs/PadmaAwards1954-2007.pdf. Retrieved 7 December 2010. 
  3. ^ a b Chapter 3 Page 14 Abul Kalam - Freedom fighters of India: (in four volumes) By Lion M. G. Agrawal
  4. ^ a b c d e f Islam, Sirajul (2006-07-23). "Azad Biography" (PHP). http://banglapedia.org/HT/A_0376.htm. Retrieved 2006-07-23. 
  5. ^ a b c Gandhi, Rajmohan (1986). Eight Lives: A Study of the Hindu-Muslim Encounter. USA: State University of New York Press. pp. 219. ISBN 0-88706-196-6. 
  6. ^ S.M. Ikram(1995). Indian Muslims and Partition of India. Atlantic Publishers and Distributors. pp. 139.
  7. ^ Maulana Abul Kalam Azad - The Builder of Modern India
  8. ^ K.r. Gupta, Amita Gupta(2006). Concise Encyclopaedia of India , Vol# 3. Atlantic Publishers & Distributors. p. 1040
  9. ^ Various. Encyclopaedia of Indian literature. Sahitya Akademi. p. 315
  10. ^ a b c d e f g Huq, Mushirul (2006-07-23). "President Azad" (PHP). http://www.aicc.org.in/new/past-president-detail.php?id=35. Retrieved 2006-07-23. 
  11. ^ Nandurkar. Sardarshri Ke Patra (2). pp. 390. 
  12. ^ Gandhi, Rajmohan. Patel: A Life. pp. 330–32. 
  13. ^ Menon, V. P.. Transfer of Power in India. pp. 235. 
  14. ^ Story of Pakistan. "Glimpse of the Quaid" (PHP). http://www.storyofpakistan.com/contribute.asp?artid=C052&Pg=2. Retrieved 2006-11-06. 
  15. ^ a b c d Mushirul Hasan (January 2000). "One hundred people who shaped India in the 20th century, Maulana Abul Kalam Azad - II" (PHP). India Today, special millennium issue, January 2000. http://www.chowk.com/ilogs/53152/30306. Retrieved 2007-06-14. 
  16. ^ Gandhi, Rajmohan. Patel: A Life. pp. 402. 
  17. ^ a b Gandhi, Rajmohan. Patel: A Life. pp. 432–33. 
  18. ^ Gandhi, Rajmohan. Patel: A Life. pp. 502–05. 
  19. ^ a b c Speech of Hon’ble Human Resource Minister on National Education Day 2009, Ministry of HRD, Government of India
  20. ^ About us Central Insitute of Education
  21. ^ UGC Genesis
  22. ^ IIT Kharagpur, History
  23. ^ a b Proceedings of the 19th meeting of The Central Advisory Board of Education, New Delhi on March 15 and 16, 1952
  24. ^ Maulana Azad Education Foundation website
  25. ^ Shri Salman Khurshid Launches Maulana Abul Kalam Azad National Fellowship, Press Information Bureau, Government of India, Tuesday, December 22, 2009
  26. ^ "Restore Maulana Azad’s grave: HC" (PHP). Express News Service, Expressindia.com. 2005-11-17. http://cities.expressindia.com/fullstory.php?newsid=157538. Retrieved 2006-11-06. 
27. 50 years after death, Maulana hasn't got his due, Times of India, Avijit Ghosh http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2008-02-22/india/27750926_1_al-hilal-muslim-leader-maulana-abul-kalam-azad

External links