مولانا سےد سلےمان ندویؒ
(صباح الدےن عبدالرحمن مرحوم کی اےک تحرےر سے)
سےد صاحب کی ولادت ۵۸۸۱ءمےں دےسنہ ضلع پٹنہ مےں ہوئی جو صوبہ بہار مےں سادات کا اےک مردم خےزگاﺅں ہے۔ عربی کی تعلےم اپنے بڑے بھائی مولوی حکےم سےد ابوحبےب صاحب رضوی مجددی سے شروع کی پھر اےک برس پھلواری شرےف مےں اور چند مہےنے مدرسہ امدادےہ دربھنگہ مےں رہی۔ اس کے بعد ۱۰۹۱ءمےں دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو ¿ مےں داخل ہوئے اور وہےں سات برس رہ کر علوم عربےہ کی تکمےل کی۔
سےد صاحب کا خاندانی پےشہ طبابت تھا۔ اہل خاندان چاہتے تھے کہ ےہ طب پڑھےں مگر موصوف کی طبےعت ادھر مائل نہ تھی۔ ۶۰۹۱ءمےں مولانا شبلی پٹنہ آئے ہوئے تھے او ر جسٹس مولوی شرف الدےن صاحب ےا مولوی خدا بخش خاں صاحب کے ےہاں ٹھہرے تھے کہ اتفاقاً موصوف کے چھوٹے چچا مولوی ابوےوسف صاحب کی ملاقات مولانا سے ہوئی، مولوی صاحب نے علامہ شبلی سے عرض کےاکہ سےد سلےمان کو نصےحت فرمائی جائے کہ وہ طب پڑھےں۔ مولانا نے فرماےا ”آپ لوگ اس کو کےوں خراب کرنا چاہتے ہےں، اس کو مےرے حوالہ کردےجئے، مےں اس کی تربےت کرکے اپنے کام کا بناﺅںگا“ چنانچہ اس دن سے اہل خانہ نے ان کو مولانا کی نذر کردےا۔
سےد صاحب کو طالب علمی سے ”الندوہ“ کی دےکھ بھال کی خدمت سپرد تھی، وہ ۶۰۹۱ءمےں اس کے سب اےڈےٹر مقرر ہوئے، ان کے مضامےن نے ان کی شہرت کو چار چاند لگادےئے۔ ۸۰۹۱ مےں دارالعلوم مےں علم کلام اور جدےد ادب عربی کے استاد مقرر ہوئے، دو برس کے بعد مولانا شبلی کے قائم کردہ شعبہ ”سےرة النبی“ مےں ان کے لٹرےری اسسٹنٹ ہوئے۔ ےہ وہ زمانہ تھا جب تمام ہندوستان طرابلس کی جنگ کے ہنگامہ سے پرشور تھا، پھر بلقان کی لڑائی شروع ہوگئی اور مسلمانوں کی سےاسےات کا قطہ نظر بدل گےا۔ اس کا ےہ نتےجہ ہوا کہ وہ خالص علمی مشاغل کو چھوڑ کر سےاسےات مےں آئے۔
جب ۰۱۹۱ءمےں مولانا ابوالکلام آزاد نے جو خود بھی مولانا شبلی کے ہم نشےں اور صحبت ےافتہ ہےں، کلکتہ سے ”الہلال“ نکالا تو سےد صاحب موصوف علمی وتعلےمی مشاغل کو چھوڑ کر ۰۱۹۱ءمےں الہلال کے اسٹاف مےں داخل ہوگئے اور ا کے اصلی ہےجان کے زمانہ مےں اس کے مضامےن مےں شرےک رہے۔ بلقان او ر مسجد کانپور کے زمانہ مےں وہ کلکتہ مےں مولانا ابوالکلام کے ساتھ سرگرم عمل رہے۔ الہلال مےں واقعہ کانپور پر ”مشہد اقدس“ کے عنوان سے سےد صاحب جو مضمون لکھا تو وہ بڑا انقلاب انگےز تھا۔ گورنمنٹ نے اس کو ضبط کرلےا۔ واقعات کے سکون کے بعد وہ پھر دفتر سےرت مےں آگئے اور ےہاں سے ۲۱۹۱ءمےں مولانا کے حکم سے ممبئی ےونےورسٹی کے ماتحت دکن کالج پونہ مےں السنہ مشرقےہ کی معلمی قبول کی۔ ابھی دو برس بھی نہےں گذرے تھے کہ نومبر ۴۱۹۱ءمےں مولانا شبلی نے انتقال کےا۔ مرتے دم شاگرد کو تار دے کر بلواےا اور وصےت کی کہ وہ سب کام چھوڑ کر سےرة النبی کی تکمےل کرےں جس کو وہ ناتمام نامرتب چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ انہوںنے استاذ کی وصےت کے مطابق سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دےا۔ سےرة النبی کی بقےہ جلدوں کی تکمےل کی۔ سےرت کے موضوع پر ےہ کتاب اپنے وقت کی وقےع ترےن کتاب ہے اور ا سکی چھ ضخےم جلدےں اسلامی معلومات کا خزانہ اور جدےد علم کلام کی اساس ہےں۔
موصوف کی سب سے پہلی تصنےف دروس الادب کے نام سے عربی کی دو رےڈرےں ہےں۔ ۲۱۹۱ءمےں مولانا شبلی کے اشارہ سے لغات جدےدہ کے نام سے انہوںنے جدےد عربی الفاظ کی ڈکشنری لکھی۔ اس کے بعد ارض القرآن کی دو جلدےں لکھےں۔ پہلی ۵۱۹۱ءاور دوسری ۸۱۹۱ءمےں، اس کتاب نے ہندوستان کے علمی حلقہ مےں ہلچل مچادی۔ بعد ازاں نواب سلطان بےگم والی بھوپال کی فرمائش پر ۰۲۹۱ءمےں سےرت عائشہ لکھی۔ ان تصانےف کے ساتھ ساتھ ملک کے دےگر علمی وتعلےمی، مذہبی مدارس ومجالس کی خدمات بھی بجا لاتے رہے۔
۵۱۹۱ءمےں انجمن ترقی اردو کے سالانہ اجلاس مےں منعقدہ پونہ کی صدارت کی اور اس مےں وہ خطبہ صدارت پڑھا جو آگے چل کر اردو کی تارےخ پر تحقےق کرنے والوں کے لئے پےش خےمہ ثابت ہوا۔ ۴۱۹۱ءکے آخر مےں ترکی نہ جب جنگ عظےم مےں شرکت کی تو مسلمانوں مےں ہےجان ہوا اور بڑے بڑے مسلمان ارباب فکر قےد وبند مےں ڈالے گئے۔ اس موقع پر جو نےا گروہ اکابرےن کی قائم مقامی کے لئے بڑھا ان مےں اےک شخصےت ان کی بھی ہے۔ ۵۱۹۱ءسے لے کر ۶۱۹۱ءتک انہوںنے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی سےاسی تحرےکات مےں شمولےت کی۔ ۷۱۹۱ءمےں مجلس علمائے بنگال کلکتہ کے نہاےت اہم اجلاس سالانہ کی صدارت کی جس مےں تمام رہنماےان ہند شرےک تھے۔ اس اجلاس مےں موصوف نے جو خطبہ پڑھا وہ بنگال مےں بڑا اثر انداز ہوا۔ےہ پہلا خطبہ تھا جس مےں جنگ کے ہےبت ناک اثرات کے باوجود مولانا ابوالکلام آزاد وغےرہ کا نام جو اس زمانہ مےں نظربند تھے جرا ¿ت کے ساتھ لےا گےا ا ور لوگوں کے دلوں سے رعب اٹھا۔
۹۱۹۱ءمےں خلافت کے سب سے پہلے اجلاس لکھنو ¿ مےں شرکت کی، بلکہ علما اور خاص ارباب سےاست کے درمےان حلقہ اتصال کا کام کےا اور اےسی پرجوش تقرےر کی کہ مسند صدارت سے پائےں تک ساری مجلس بزم ماتم بن گئی اور مولانا عبدالباری مرحوم اور چودھری خلےق الزماں صاحب وغےرہ کے سارے اختلافات خس وخاشاک کی طرح اس سےل نم مےں بہہ گئے۔
فروری ۰۲۹۱ءمےں مولانا محمد علی جوہر کی سرگردی مےں معاملات ترکی مےں انصاف طلبی اور مسلمانان ہند کے مطالبات کی تشرےح کے لئے جو خلافت ڈےپوٹےشن ےورپ بھےجا گےا اس کے تےن ممبروں مےں اےک ممبرہ وہ بھی منتخب ہوئے۔ اس وفد کے ساتھ اٹلی، فرانس اور انگلستان مےں حقوق ترکی کے لئے زبان وقلم اور دعوت اشاعت کے ذرےعہ سے لڑتے اور وہاں کے وزرا، ارباب سےاست اور آزاد مسلمانوں کے گروہ در گروہ سے جو فرانس، سوئٹزرلےنڈ اور اٹلی مےں تھے ملتے اور تحرےکات مےں شمولےت کرتے رہے۔
۰۲۹۱ءکے آخر مےں ےورپ کے سفر سے واپس آکر وہ کانگرےس مےں داخل ہوئے اور ترک موالات کی تحرےک مےں دےگر علماءوزعماءکے ساتھ مل کر ملک کا دورہ کےا۔ خلافت اور جمعےة العلماءکی مجلس عاملہ کے رکن مقرر ہوئے اور ۷۳۹۱ءتک اس کے جزو وکل مےں شرےک رہے۔
۴۲۹۱ءمےں ابن سعود اور شرےف حسےن مےں جب جنگ کا آغاز ہوا اور دونوں نے مجلس خلافت کی طرف ہاتھ بڑھاےا تو مسلمانان ہند نے موصوف کی صدارت مےں اےک وفد حجاز کو بھےجا تاکہ وہ فرےقےن کے سامنے مجلس خلافت کی تجاوےز کو پےش کرے۔ اس سلسلہ مےں انہوںنے دو ماہ جدہ مےں عےن جنگ کے زمانہ مےں رہ کر مفوضہ فرائض کو انجام دےا اور بڑی دلےری سے شرےف حسےن اور سلطان ابن سعود کی حکومتوں سے حجاز مےں عربوں کی اےک جمہوری حکومت کے قےام کے مسئلہ مےں گفتگو اور خط وکتابت کرتے رہے اور جب اس مےں ناکامی ہوئی تو حجاز سے مصر کا سفر کےا اور وہاں کے علماءاور اکابر سے مل کر حجاز کے معاملہ پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کا نتےجہ ےہ ہواکہ شےخ ازہر نے ان تجاوےز پر اپنی رضامندی ظاہر کی، ےہ اس وفد کی اےسی کامےابی تھی کہ ”رائٹر“ نے اس کی خبر مصر سے ہندوستان بھےجی اور دنےا کے دوسرے شہروں مےں مشتہر کی۔
مارچ ۶۲۹۱ءمےں کلکتہ مےں جمعےة العلماءکا جو اہم سالانہ اجلاس ہوا اس کے وہ صدر منتخب ہوئے۔ اس موقع پر موصوف نے جو خطبہ صدارت پڑھا وہ ہندوستان کی اسلامی سےاسےات مےں ےادگار ہے، اسی سال وہ پھر دوسرے وفد حجاز کے صدر منتخب ہوئے۔ ےہ ہندوستان مےں شدھی اور سنگٹھن کے زور کا زمانہ تھا۔ اس موقع پر دہلی مےں مجلس خلافت کا خاص اجلاس ہوا اور حکےم اجمل خاں مرحوم کی تحرےک پر موصوف نے اس کی صدارت کی۔ اس اجلاس مےں موصوف نے ہندومسلمان تعلقات کی نسبت مسلمانوں کے نقطہ نظر کو علی الاعلان پےش کےا۔
اس کانفرنس سے فارغ ہوکر وہ حجاز کا وفد خلافت لے کر جس کے ممبر مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی اور شعےب قرےشی تھے حجاز کو روانہ ہوئے۔ اس وقت سلطان ابن سعود نے تمام دنےا سے مسلمانوں کی کانفرنس مکہ معظمہ مےں طلب کی تھی۔ ترکی، مصر، افغانستان، ےمن او ر دسرے اسلامی ملکوں کے نمائندے شرےک اجلاس تھے اور چند ہفتوں تک برابر اس کے اجلاس ہوتے رہے۔ تمام دنےا کے نمائندوں نے بہت بڑی اکثرےت سے موصوف کو اس اجلاس کا وائس پرےسےڈےنٹ (نائب الرئےس) منتخب کےا اور متعدد دفعہ انہوںنے صدر اجلاس کی غےر حاضری مےں اس اسلامی موتمر کے جلسوں کی صدارت کی۔ اسی سفر مےں حجاز کے معاملات اور ابن سعود کے تسلط کی موافقت ومخالفت کے مسائل مےں وہ اپنے رفقاءمولانا محمد علی صاحب وغےرہ سے اختلاف رائے کی بنا پر سےاسےات سے کنارہ کش ہوکر خالص اصلاحی وعلمی وتعلےمی کاموں مےں منہمک ہوگئے۔
سےد صاحب موصوف کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ دارالمصنفےن ہے جو مولانا شبلی کی ےادگار مےں ۴۱۹۱ءمےں مولانا شبلی کے موطن ومدفن اعظم گڈھ مےں قائم ہوا۔ اس ادارہ نے اسلامی علوم وفنون پر بہت سی کتابےں شائع کی ہےں۔ ”معارف“ اس کا ماہوار رسالہ ہے، سےد صاحب نے ۵۲سال سے زائد عرصہ تک اس کی ادارت کی۔
۳۳۹۱ءمےں ہزمجسٹی شاہ نادر خاں کی دعوت پر ڈاکٹر سراقبال اور نواب سر راس مسعود کے ساتھ کابل ےونےورسٹی کے قےام کے مشوروں کے لئے کابل گئے اور وہاں حکومت کے مہمان رہے اور اسی سلسلہ مےں غزنی اور قندھار کا سفر کےا۔ ۵۳۹۱ءمےں رےاست حےدر آباد دکن نے ضابطہ فوجداری شرعی کی تدوےن کی خدمت ان کے سپرد کردی۔ جس کو بخوبی انجام دےا۔ رےاست نے اس ضابطہ پر نظر ثانی کرنے کے لئے اےک کمےٹی مقرر کی جس مےں اےک سابق جج ہائی کورٹ، مفتی رےاست اور آپ تھے۔ اس کمےٹی نے اےک مہےنہ مےں اپنا کام پورا کےا۔
فلسطےن کے مسئلہ مےں انہوںنے اپنی آواز بلند کی اور ۶۳۹۱ءکی آل انڈےا فلسطےن کانفرنس دہلی کی صدارت کی۔ اس موقع پر جو خطبہ انہوںنے پڑھا اس نے سارے ملک بلکہ دنےائے اسلام مےں تہلکہ مچادےا۔ مصر اور شام کے اخبارات نے اس کے ترجمے چھاپے، مجلس اعلیٰ فلسطےن کے صدر سےد امےن الحسےنی نے تار سے ان کا شکرےہ ادا کےا۔
دارالعلوم ندوة العلماءکے معتمد، علی گڈھ ےونےورسٹی کورٹ، ہندوستانی اکےڈمی الہ آباد، مدرسہ اکزامنےشن بورڈ پٹنہ، ہندوستانی کمےٹی حکومت بہار اور جامعہ ملےہ اسلامےہ دہلی کے ممبر رہے۔ اردو زبان اور اردو ادبےات سے ان کو ہمےشہ ذوق رہا، ان کے قلم کی نکلی ہوئی تحرےرےں ادب اردو کا اعلیٰ نمونہ سمجھی جاتی ہےں، ہندوستانی زبان کی تحرےک کی بنےاد انہی نے ڈالی۔ دروس الادب (عربی رےڈر) لغات جدےدہ (عربی لغات) ارض القرآن دو جلدےں، سےرة عائشہ، سےرة النبی کی پانچ ضخےم جلدےں، حےات ام مالک، خطبات مدارس، عرب وہند کے تعلقات، عربوں کی جہاز رانی، خےام ان کی مشہور کتابےں ہےں۔ ان کے علاوہ خلافت اور تعلےم کے موضوع پر چند رسالے اور بے شمار علمی وادبی مضامےن آپ نے لکھے۔
علامہ سےّد سلےمان ندوی
پروفےسر ضےاءالدےن احمد برنی
ضلع پٹنہ مےں دےسنہ نام کا اےک موضع ہے۔ ےہ بڑا مردم خےز حلقہ ہے۔ اس چھوٹے سے گاﺅں نے جتنے گرےجوےٹ پےدا کئے ہےں اتنے ہندوستان کے کسی اور گاﺅں نے نہےں پےدا کئے ہوںگے۔ اس طرح اس نے عربی کے بھی متعدد منتہی پےدا کےے۔ انہی مےں سےد سلےمان کا شمار ہے۔دارالعلوم ندوہ کے کسی سالانہ اجلاس مےں سےد صاحب نے پہلی دفعہ عربی مےں برجستہ تقرےر کی جسے سن کو علامہ شبلی اس قدر خوش ہوئے کہ انہوںنے جلسہ مےں اپنا عمامہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دےا۔ اسی طرح جب علامہ سےد رشےد رضا (اےڈےٹر المنار) دارالعلوم ندوہ دےکھنے کے لئے لکھنو ¿ آئے تو اس موقع پر سےد سلےمان نے عربی مےں ان کا خےر مقدم کےا جس سے رشےد رضا اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوںنے انہےں گلے لگالےا۔
بالائے عرش زہوش مندی
می تافت ستارئہ بلندی
سےد صاحب نے کچھ دن تک دارالعلوم کی سند تدرےس کو زےنت بخشی۔ کچھ عرصہ تک ”الہلال“ مےں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ کام کےا۔ اس کے بعد دکن کالج پونا مےں دوسال تک فارسی کے اسسٹنٹ پروفےسر رہے۔ پھر علامہ شبلی نے انہےں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دےنے اور دارالمصنفےن مےں آکر کام کرنے کا حکم دےا۔ چنانچہ وہ اپنے استاد کی خواہش پر دارالمصنفےن چلے گئے۔ پونا کے دوران قےام مےں انہوںنے ”ارض القرآن“ لکھی جسے مشرق ومغرب کے مستشرقےن نے بہت سراہا۔ اس موضوع پر ےہ پہلی کتاب ہے اور تحقےق وعلمےت کا نادر نمونہ ہے۔ وفات سے قبل علامہ شبلی نے سےد صاحب سے تاکےد فرماےا کہ ”سےرت نبوی کے کام کو سب کاموں پر اولےت دی جائے“ ےہ حقےقت ہے کہ جس خوش اسلوبی سے انہوںنے اپنے آستانہ کی نامکمل کتاب کو پاےہ تکمےل پہنچاےا اس کی وجہ سے علمی دنےا مےں ان کا نام دور دور مشہور ہوگےا۔ سےرت کی چھ جلدوں مےں ابتدائی پونے دو استاد کی ہےں۔ سےد صاحب ساری عمر طالب علم رہے۔ اےک زمانہ مےں وہ سےاسےات مےں بھی حصہ لےتے تھے لےکن انہوںنے اس خارزار سے بہت جلد اپنا دامن چھڑالےا اور خاموش علمی خدمت مےں اپنی بقےہ عمر گزاردی۔ ان کی کتابےں ”عمر خےام“ عرب وہند کے تعلقات“ وغےرہ تحقےق کے اعتبار سے حرف آخر کی حےثےت رکھتی ہے۔
۰۲۹۱ءمےں جب وفد خلافت انگلستان بھےجنے کی تجوےز ہوئی تو اپنی غےر معمولی علمی فضےلت کی وجہ سے انہےں علمائے ہند کی جانب سے وفد مےں شامل کےا گےا۔ وہاں انہوںنے ممتاز مستشرقےن سے ملاقاتےں کےں اور انہےں اپنا ہم خےال بناےا۔ جولائی کے ”فارےن افےئرز“ مےں ان کا اےک مضمون شائع ہوا تھا جس مےں خلافت کے مذہبی پہلو کو نہاےت قابلےت سے اجاگر کےا گےا تھا۔ سےد صاحب کا اےک اور کارنامہ ےہ ہے کہ انہوںنے اپنے استاد کے سوانح حےات اےک مبسوط کتاب کی صورت مےں لکھی۔
سےد صاحب کی نماز جنازہ نےوٹاﺅن مسجد (لاہور) مےں ہزارہا اشخاص کی موجودگی مےں ادا کی گئی۔ مملکت شام کے ثقافتی اتاشی شےخ ابوالخےر نے تدفےن کے بعد تقرےر کرتے ہوئے فرماےا: ”مجھے غم اس بات کا نہےں ہے کہ سےد سلےمان ہم مےں سے اٹھ گئے، مجھے اگر غم ہے تو اس بات کا کہ علم بھی ان کے ساتھ دفن ہوگےا“۔
سےد صاحب فطرةً نہاےت خاموش اور قناعت پسند انسان تھے۔ ان کی زندگی مےں ہمےں دےن ودنےا دونوں متوازن طرےقے سے سموئے ہوئے ملتے ہےں۔ ان کی زندگی کی پاکےزگی ان کے چہرے سے ہوےدا تھی۔ جن دنوں وہ دکن کالج پونا سے وابستہ تھے، اسی زمانہ کا اےک واقعہ مجھے ےاد رہ گےا ہے جسے خود سےد صاحب نے سناےا تھا۔ فرماتے تھے: ”ہمارے کالج کا اےک پروفےسر مراٹھی مےں کسی کو ڈانٹ رہاتھا، لےکن گالےاں اردو مےں دے رہا تھا۔ اس پر مےں نے پوچھا کہ کےا مراٹھی مےں ان گالےوں کے مترادفات موجود ہےں؟ کہا، ہےں تو، مگر اردو کا سا زور ان مےں کہاں؟“ بہرحال سےد صاحب ےہ دےکھ کر خوش تھے کہ خواہ کسی حےثےت سے سہی اردو کا سکہ دور دور تک جاری وساری تو ہے۔
ان کی تنہا ذات اےک انجمن کی حےثےت رکھتی تھی۔ عام مولوےوں کی طرح وہ زاہد خشک نہ تھے۔ وہ بلبل ہزار داستان تھے اور ےوروپ اور حجاز کے سفروں کے واقعات مزے لے لے کر بےان کرتے تھے۔ ان کی طبےعت مےں مزاح تھا لےکن وہ شائستگی کے حدود سے کبھی آگے نہےں بڑھا۔ اس سلسلہ مےں اےک واقعہ قابل ذکر ہےں۔ اےک دفعہ مولانا.... دارالمصنفےن تشرےف لائے۔ عےن اس وقت کہےں سے کوئی گدھا بھی اندر آگےا۔ مولانا نے حےرت سے سےد صاحب سے پوچھا کہ ”ےہاں گدھے بھی آجاتے ہےں؟“ فرماےا، ”ہاں، کبھی کبھی باہر سے آجاتے ہےں۔“ ےہ جواب سن کر مولانا چپ سادھ گئے۔ انہےںجو محبت اپنے استاد (علامہ شبلی) سے تھی اسے دےکھ کر پرانے زمانے کے گرو اور چےلے کے تعلقات کی ےاد تازہ ہوجاتی تھی۔ موجودہ دور کے شاگردوں مےں ان کا سا شغف کبھی دےکھنے مےں نہےں آسکتا۔
جس زمانہ مےں مےں مدخولہ حکومت بمبئی مےں تھا، دوسرے فرائض کے علاوہ مولانا محمد علی کے خطوط کو سنسر کرنے کی خدمت بھی مےرے سپرد تھی۔ بےجاپور کی قےد کے زمانہ مےں مولانا ۰۸۔۰۸ صفحات کے خط لکھا کرتے تھے اور ان مےں جہاں دنےا بھر کی باتےں ہوتی تھےں وہاں ان کا تازہ کلام بھی ہوتا تھا۔ بےجاپور سے اپنی رہائی سے قبل جو آخری خط مولانا نے لکھا اس مےں ان کی ۲۲اشعار کی اےک غزل بھی تھی جس کا مطلع تھا:
ہے ےہاں نام عشق کا لےنا
اپنے پےچھے بلا لگالےنا
مےں نے غزل نقل کرکے ”معارف“ مےں چھپنے کے لئے بھےج دی اور پروفےسر سےد سعےد رضا کے ذرےعہ ےہ ہداےت بھجوادی کہ ےہ ظاہر نہ ہونے پائے کہ غزل ان تک کےسے پہنچی۔ مگر سےد صاحب کے شوخ قلم نے تمہےد کے طور پر ےہ الفاظ بڑھا ہی دےے: ”جناب جوہر کا ےہ کلام ان کی آزادی سے پہلے آزاد ہوکر ہمارے پاس پہنچا تھا۔“
سےد صاحب کی موت سے پاکستان اور بھارت دونوں اےک شرےف ترےن شخصےت، اےک بے بدل فاضل، اےک زبردست مصنف، اےک غےر جانبدار مورخ اور اےک عالم با عمل کی خدمات سے محروم ہوگئے۔ اےسے اشخاص کہےں صدےوں مےں جاکر پےدا ہوتے ہےں اور جب تک زندہ رہتے ہےں اپنی زندگی کی درخشانی سے دنےا کو منور کرجاتے ہےں اور مرنے کے بعد بھی فےض پہنچاتے رہتے ہےں۔
ماہرالقادری لکھتے ہےں کہ مولانا سےد سلےمان ندوی کے قلم نے دس بےس سال نہےں، پچاس سال تک دےن اور علم وادب کی گراں قدر خدمت انجام دی ہے، علامہ شبلی نعمانی کے سجادئہ علم وفضل کو انہی نے سنبھالا او ر اپنے استاد کی جانشےنی کا حق ادا کردےا، شبلی نعمانی نے لائق شاگرد کو مرتے دم وصےت کی تھی کہ سےرة النبی صلی اللہ علےہ وسلم کے کام کو پورا کرنا اور سےد صاحب مرحوم نے اس عظےم الشان کام کو اس خوبی کے ساتھ انجام دےا کہ وہ دےن واخلاق اور تارےخ ادب کا قابل فخر کارنامہ بن گےا اور اس طرح استاد اور شاگرد دونوں نے اپنی آخرت کے لئے نےکی اور ثواب کا ذخےرہ فراہم کرلےا (رحمہما اللہ وجزاہما خےرالجزائ)
سےرة النبی کے مجلدات کے علاوہ ”ارض القرآن“، ”سےرت عائشہ“ اور ”خطبات مدارس“ سےد صاحب مرحوم کی معرکہ آرا تصانےف ہےں، دوسری چھوٹی چھوٹی کتابےں اور علمی اور تارےخی مضامےن بھی بڑے کام کی چےزےں ہےں، کمےونزم کے بارے مےں سےد صاحب مرحوم کا ےہ جملہ ےقےنا ضرب المثل بن کر رہے گا کہ ”ےہ (کمےونزم) وقت واحد مےں بادشاہ کو تخت سے اور خدا کو عرش سے اتار دےنا چاہتا ہے۔“
سےد صاحب مرحوم کو اپنے استاد سے شعر وسخن کا جو ذوق ورثہ مےں ملا تھا، اسی ذوق نے ”عمر وخےام“ پر ان سے کتاب لکھوادی، اس قدر تحقےق اور تفصےل کے ساتھ کسی اےرانی ادےب اور تنقےد نگار نے بھی خےام پر غالباً کوئی کتاب نہےں لکھی۔ مجلہ ”معارف“ کو جو وقار، مرتبت اور اونچے علمی حلقوں مےں قبولےت حاصل ہوئی، وہ سب کچھ سےد صاحب مرحوم کی کامےاب ادارت کا ظہور تھا۔ حےات شبلی بھی سےد صاحب کی بلندپاےہ تصنےف ہے اور فن سےرت نگاری (بےوگرافی) پر معےاری کتاب ہے۔
سےد صاحب قدس سرہ عربی زبان کے بڑے اچھے انشا پرداز تھے، انگرےزی بھی بقدر ضرورت ان کو آتی تھی، ارض القرآن کی تصنےف کے سلسلہ مےں تھوڑی سی عبرانی بھی سےکھ لی تھی اور فارسی دانی کا ےہ عالم تھا کہ علامہ اقبالؒ کے فارسی کلام کی غلطےوں پر گرفت کی اور ان کے بعض مشوروں کو اقبال نے قبول کرلےا، علامہ اقبال نے سےد صاحب مرحوم کو اےک بار لکھا تھا کہ مےری مثنوی پر نکلسن کی رائے آچکی ہے مگر مےں آپ کی رائے کا منتظر ہوں!
سےد صاحبؒ نے اپنے تلامذہ کی جو جماعت چھوڑی ہے ان مےں سے بعض شاگرد اپنی جگر خود زندہ دبستان ہےں اور علمی دنےا مےں بڑی شہرت رکھتے ہےں! سےد صاحب کا ہمارے درمےان سے اٹھ جانا اےک علمی حادثہ ہی نہےں دےنی سانحہ بھی ہے۔ رئےس الاصرار مولانا محمد علی جوہر خلافت کے جس وفد کو لےکر انگلستان گئے تھے، سےد صاحب بھی اس کے اےک رکن تھے، اس سلسلہ مےں انہےں ےوروپ کی سےاحت کا بھی موقع مل گےا، ااےک ادےب، مورخ اور محقق کے لئے اس قسم کی سےر وسفر بہت ہی مفےد ثابت ہوتا ہے اور فکر ونظر مےں وسعت پےدا ہوجاتی ہے۔ آخر زمانہ مےں ےعنی وفات سے چند سال قبل حکےم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حلقہ ارادت مےں سےد صاحب مرحوم داخل ہوگئے تھے۔ ”ندوےت“ اور ”خانقاہےت“ کا ےہ امتزاج بھی دےدنی تھا!!
(صباح الدےن عبدالرحمن مرحوم کی اےک تحرےر سے)
سےد صاحب کی ولادت ۵۸۸۱ءمےں دےسنہ ضلع پٹنہ مےں ہوئی جو صوبہ بہار مےں سادات کا اےک مردم خےزگاﺅں ہے۔ عربی کی تعلےم اپنے بڑے بھائی مولوی حکےم سےد ابوحبےب صاحب رضوی مجددی سے شروع کی پھر اےک برس پھلواری شرےف مےں اور چند مہےنے مدرسہ امدادےہ دربھنگہ مےں رہی۔ اس کے بعد ۱۰۹۱ءمےں دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو ¿ مےں داخل ہوئے اور وہےں سات برس رہ کر علوم عربےہ کی تکمےل کی۔
سےد صاحب کا خاندانی پےشہ طبابت تھا۔ اہل خاندان چاہتے تھے کہ ےہ طب پڑھےں مگر موصوف کی طبےعت ادھر مائل نہ تھی۔ ۶۰۹۱ءمےں مولانا شبلی پٹنہ آئے ہوئے تھے او ر جسٹس مولوی شرف الدےن صاحب ےا مولوی خدا بخش خاں صاحب کے ےہاں ٹھہرے تھے کہ اتفاقاً موصوف کے چھوٹے چچا مولوی ابوےوسف صاحب کی ملاقات مولانا سے ہوئی، مولوی صاحب نے علامہ شبلی سے عرض کےاکہ سےد سلےمان کو نصےحت فرمائی جائے کہ وہ طب پڑھےں۔ مولانا نے فرماےا ”آپ لوگ اس کو کےوں خراب کرنا چاہتے ہےں، اس کو مےرے حوالہ کردےجئے، مےں اس کی تربےت کرکے اپنے کام کا بناﺅںگا“ چنانچہ اس دن سے اہل خانہ نے ان کو مولانا کی نذر کردےا۔
سےد صاحب کو طالب علمی سے ”الندوہ“ کی دےکھ بھال کی خدمت سپرد تھی، وہ ۶۰۹۱ءمےں اس کے سب اےڈےٹر مقرر ہوئے، ان کے مضامےن نے ان کی شہرت کو چار چاند لگادےئے۔ ۸۰۹۱ مےں دارالعلوم مےں علم کلام اور جدےد ادب عربی کے استاد مقرر ہوئے، دو برس کے بعد مولانا شبلی کے قائم کردہ شعبہ ”سےرة النبی“ مےں ان کے لٹرےری اسسٹنٹ ہوئے۔ ےہ وہ زمانہ تھا جب تمام ہندوستان طرابلس کی جنگ کے ہنگامہ سے پرشور تھا، پھر بلقان کی لڑائی شروع ہوگئی اور مسلمانوں کی سےاسےات کا قطہ نظر بدل گےا۔ اس کا ےہ نتےجہ ہوا کہ وہ خالص علمی مشاغل کو چھوڑ کر سےاسےات مےں آئے۔
جب ۰۱۹۱ءمےں مولانا ابوالکلام آزاد نے جو خود بھی مولانا شبلی کے ہم نشےں اور صحبت ےافتہ ہےں، کلکتہ سے ”الہلال“ نکالا تو سےد صاحب موصوف علمی وتعلےمی مشاغل کو چھوڑ کر ۰۱۹۱ءمےں الہلال کے اسٹاف مےں داخل ہوگئے اور ا کے اصلی ہےجان کے زمانہ مےں اس کے مضامےن مےں شرےک رہے۔ بلقان او ر مسجد کانپور کے زمانہ مےں وہ کلکتہ مےں مولانا ابوالکلام کے ساتھ سرگرم عمل رہے۔ الہلال مےں واقعہ کانپور پر ”مشہد اقدس“ کے عنوان سے سےد صاحب جو مضمون لکھا تو وہ بڑا انقلاب انگےز تھا۔ گورنمنٹ نے اس کو ضبط کرلےا۔ واقعات کے سکون کے بعد وہ پھر دفتر سےرت مےں آگئے اور ےہاں سے ۲۱۹۱ءمےں مولانا کے حکم سے ممبئی ےونےورسٹی کے ماتحت دکن کالج پونہ مےں السنہ مشرقےہ کی معلمی قبول کی۔ ابھی دو برس بھی نہےں گذرے تھے کہ نومبر ۴۱۹۱ءمےں مولانا شبلی نے انتقال کےا۔ مرتے دم شاگرد کو تار دے کر بلواےا اور وصےت کی کہ وہ سب کام چھوڑ کر سےرة النبی کی تکمےل کرےں جس کو وہ ناتمام نامرتب چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ انہوںنے استاذ کی وصےت کے مطابق سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دےا۔ سےرة النبی کی بقےہ جلدوں کی تکمےل کی۔ سےرت کے موضوع پر ےہ کتاب اپنے وقت کی وقےع ترےن کتاب ہے اور ا سکی چھ ضخےم جلدےں اسلامی معلومات کا خزانہ اور جدےد علم کلام کی اساس ہےں۔
موصوف کی سب سے پہلی تصنےف دروس الادب کے نام سے عربی کی دو رےڈرےں ہےں۔ ۲۱۹۱ءمےں مولانا شبلی کے اشارہ سے لغات جدےدہ کے نام سے انہوںنے جدےد عربی الفاظ کی ڈکشنری لکھی۔ اس کے بعد ارض القرآن کی دو جلدےں لکھےں۔ پہلی ۵۱۹۱ءاور دوسری ۸۱۹۱ءمےں، اس کتاب نے ہندوستان کے علمی حلقہ مےں ہلچل مچادی۔ بعد ازاں نواب سلطان بےگم والی بھوپال کی فرمائش پر ۰۲۹۱ءمےں سےرت عائشہ لکھی۔ ان تصانےف کے ساتھ ساتھ ملک کے دےگر علمی وتعلےمی، مذہبی مدارس ومجالس کی خدمات بھی بجا لاتے رہے۔
۵۱۹۱ءمےں انجمن ترقی اردو کے سالانہ اجلاس مےں منعقدہ پونہ کی صدارت کی اور اس مےں وہ خطبہ صدارت پڑھا جو آگے چل کر اردو کی تارےخ پر تحقےق کرنے والوں کے لئے پےش خےمہ ثابت ہوا۔ ۴۱۹۱ءکے آخر مےں ترکی نہ جب جنگ عظےم مےں شرکت کی تو مسلمانوں مےں ہےجان ہوا اور بڑے بڑے مسلمان ارباب فکر قےد وبند مےں ڈالے گئے۔ اس موقع پر جو نےا گروہ اکابرےن کی قائم مقامی کے لئے بڑھا ان مےں اےک شخصےت ان کی بھی ہے۔ ۵۱۹۱ءسے لے کر ۶۱۹۱ءتک انہوںنے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی سےاسی تحرےکات مےں شمولےت کی۔ ۷۱۹۱ءمےں مجلس علمائے بنگال کلکتہ کے نہاےت اہم اجلاس سالانہ کی صدارت کی جس مےں تمام رہنماےان ہند شرےک تھے۔ اس اجلاس مےں موصوف نے جو خطبہ پڑھا وہ بنگال مےں بڑا اثر انداز ہوا۔ےہ پہلا خطبہ تھا جس مےں جنگ کے ہےبت ناک اثرات کے باوجود مولانا ابوالکلام آزاد وغےرہ کا نام جو اس زمانہ مےں نظربند تھے جرا ¿ت کے ساتھ لےا گےا ا ور لوگوں کے دلوں سے رعب اٹھا۔
۹۱۹۱ءمےں خلافت کے سب سے پہلے اجلاس لکھنو ¿ مےں شرکت کی، بلکہ علما اور خاص ارباب سےاست کے درمےان حلقہ اتصال کا کام کےا اور اےسی پرجوش تقرےر کی کہ مسند صدارت سے پائےں تک ساری مجلس بزم ماتم بن گئی اور مولانا عبدالباری مرحوم اور چودھری خلےق الزماں صاحب وغےرہ کے سارے اختلافات خس وخاشاک کی طرح اس سےل نم مےں بہہ گئے۔
فروری ۰۲۹۱ءمےں مولانا محمد علی جوہر کی سرگردی مےں معاملات ترکی مےں انصاف طلبی اور مسلمانان ہند کے مطالبات کی تشرےح کے لئے جو خلافت ڈےپوٹےشن ےورپ بھےجا گےا اس کے تےن ممبروں مےں اےک ممبرہ وہ بھی منتخب ہوئے۔ اس وفد کے ساتھ اٹلی، فرانس اور انگلستان مےں حقوق ترکی کے لئے زبان وقلم اور دعوت اشاعت کے ذرےعہ سے لڑتے اور وہاں کے وزرا، ارباب سےاست اور آزاد مسلمانوں کے گروہ در گروہ سے جو فرانس، سوئٹزرلےنڈ اور اٹلی مےں تھے ملتے اور تحرےکات مےں شمولےت کرتے رہے۔
۰۲۹۱ءکے آخر مےں ےورپ کے سفر سے واپس آکر وہ کانگرےس مےں داخل ہوئے اور ترک موالات کی تحرےک مےں دےگر علماءوزعماءکے ساتھ مل کر ملک کا دورہ کےا۔ خلافت اور جمعےة العلماءکی مجلس عاملہ کے رکن مقرر ہوئے اور ۷۳۹۱ءتک اس کے جزو وکل مےں شرےک رہے۔
۴۲۹۱ءمےں ابن سعود اور شرےف حسےن مےں جب جنگ کا آغاز ہوا اور دونوں نے مجلس خلافت کی طرف ہاتھ بڑھاےا تو مسلمانان ہند نے موصوف کی صدارت مےں اےک وفد حجاز کو بھےجا تاکہ وہ فرےقےن کے سامنے مجلس خلافت کی تجاوےز کو پےش کرے۔ اس سلسلہ مےں انہوںنے دو ماہ جدہ مےں عےن جنگ کے زمانہ مےں رہ کر مفوضہ فرائض کو انجام دےا اور بڑی دلےری سے شرےف حسےن اور سلطان ابن سعود کی حکومتوں سے حجاز مےں عربوں کی اےک جمہوری حکومت کے قےام کے مسئلہ مےں گفتگو اور خط وکتابت کرتے رہے اور جب اس مےں ناکامی ہوئی تو حجاز سے مصر کا سفر کےا اور وہاں کے علماءاور اکابر سے مل کر حجاز کے معاملہ پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کا نتےجہ ےہ ہواکہ شےخ ازہر نے ان تجاوےز پر اپنی رضامندی ظاہر کی، ےہ اس وفد کی اےسی کامےابی تھی کہ ”رائٹر“ نے اس کی خبر مصر سے ہندوستان بھےجی اور دنےا کے دوسرے شہروں مےں مشتہر کی۔
مارچ ۶۲۹۱ءمےں کلکتہ مےں جمعےة العلماءکا جو اہم سالانہ اجلاس ہوا اس کے وہ صدر منتخب ہوئے۔ اس موقع پر موصوف نے جو خطبہ صدارت پڑھا وہ ہندوستان کی اسلامی سےاسےات مےں ےادگار ہے، اسی سال وہ پھر دوسرے وفد حجاز کے صدر منتخب ہوئے۔ ےہ ہندوستان مےں شدھی اور سنگٹھن کے زور کا زمانہ تھا۔ اس موقع پر دہلی مےں مجلس خلافت کا خاص اجلاس ہوا اور حکےم اجمل خاں مرحوم کی تحرےک پر موصوف نے اس کی صدارت کی۔ اس اجلاس مےں موصوف نے ہندومسلمان تعلقات کی نسبت مسلمانوں کے نقطہ نظر کو علی الاعلان پےش کےا۔
اس کانفرنس سے فارغ ہوکر وہ حجاز کا وفد خلافت لے کر جس کے ممبر مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی اور شعےب قرےشی تھے حجاز کو روانہ ہوئے۔ اس وقت سلطان ابن سعود نے تمام دنےا سے مسلمانوں کی کانفرنس مکہ معظمہ مےں طلب کی تھی۔ ترکی، مصر، افغانستان، ےمن او ر دسرے اسلامی ملکوں کے نمائندے شرےک اجلاس تھے اور چند ہفتوں تک برابر اس کے اجلاس ہوتے رہے۔ تمام دنےا کے نمائندوں نے بہت بڑی اکثرےت سے موصوف کو اس اجلاس کا وائس پرےسےڈےنٹ (نائب الرئےس) منتخب کےا اور متعدد دفعہ انہوںنے صدر اجلاس کی غےر حاضری مےں اس اسلامی موتمر کے جلسوں کی صدارت کی۔ اسی سفر مےں حجاز کے معاملات اور ابن سعود کے تسلط کی موافقت ومخالفت کے مسائل مےں وہ اپنے رفقاءمولانا محمد علی صاحب وغےرہ سے اختلاف رائے کی بنا پر سےاسےات سے کنارہ کش ہوکر خالص اصلاحی وعلمی وتعلےمی کاموں مےں منہمک ہوگئے۔
سےد صاحب موصوف کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ دارالمصنفےن ہے جو مولانا شبلی کی ےادگار مےں ۴۱۹۱ءمےں مولانا شبلی کے موطن ومدفن اعظم گڈھ مےں قائم ہوا۔ اس ادارہ نے اسلامی علوم وفنون پر بہت سی کتابےں شائع کی ہےں۔ ”معارف“ اس کا ماہوار رسالہ ہے، سےد صاحب نے ۵۲سال سے زائد عرصہ تک اس کی ادارت کی۔
۳۳۹۱ءمےں ہزمجسٹی شاہ نادر خاں کی دعوت پر ڈاکٹر سراقبال اور نواب سر راس مسعود کے ساتھ کابل ےونےورسٹی کے قےام کے مشوروں کے لئے کابل گئے اور وہاں حکومت کے مہمان رہے اور اسی سلسلہ مےں غزنی اور قندھار کا سفر کےا۔ ۵۳۹۱ءمےں رےاست حےدر آباد دکن نے ضابطہ فوجداری شرعی کی تدوےن کی خدمت ان کے سپرد کردی۔ جس کو بخوبی انجام دےا۔ رےاست نے اس ضابطہ پر نظر ثانی کرنے کے لئے اےک کمےٹی مقرر کی جس مےں اےک سابق جج ہائی کورٹ، مفتی رےاست اور آپ تھے۔ اس کمےٹی نے اےک مہےنہ مےں اپنا کام پورا کےا۔
فلسطےن کے مسئلہ مےں انہوںنے اپنی آواز بلند کی اور ۶۳۹۱ءکی آل انڈےا فلسطےن کانفرنس دہلی کی صدارت کی۔ اس موقع پر جو خطبہ انہوںنے پڑھا اس نے سارے ملک بلکہ دنےائے اسلام مےں تہلکہ مچادےا۔ مصر اور شام کے اخبارات نے اس کے ترجمے چھاپے، مجلس اعلیٰ فلسطےن کے صدر سےد امےن الحسےنی نے تار سے ان کا شکرےہ ادا کےا۔
دارالعلوم ندوة العلماءکے معتمد، علی گڈھ ےونےورسٹی کورٹ، ہندوستانی اکےڈمی الہ آباد، مدرسہ اکزامنےشن بورڈ پٹنہ، ہندوستانی کمےٹی حکومت بہار اور جامعہ ملےہ اسلامےہ دہلی کے ممبر رہے۔ اردو زبان اور اردو ادبےات سے ان کو ہمےشہ ذوق رہا، ان کے قلم کی نکلی ہوئی تحرےرےں ادب اردو کا اعلیٰ نمونہ سمجھی جاتی ہےں، ہندوستانی زبان کی تحرےک کی بنےاد انہی نے ڈالی۔ دروس الادب (عربی رےڈر) لغات جدےدہ (عربی لغات) ارض القرآن دو جلدےں، سےرة عائشہ، سےرة النبی کی پانچ ضخےم جلدےں، حےات ام مالک، خطبات مدارس، عرب وہند کے تعلقات، عربوں کی جہاز رانی، خےام ان کی مشہور کتابےں ہےں۔ ان کے علاوہ خلافت اور تعلےم کے موضوع پر چند رسالے اور بے شمار علمی وادبی مضامےن آپ نے لکھے۔
علامہ سےّد سلےمان ندوی
پروفےسر ضےاءالدےن احمد برنی
ضلع پٹنہ مےں دےسنہ نام کا اےک موضع ہے۔ ےہ بڑا مردم خےز حلقہ ہے۔ اس چھوٹے سے گاﺅں نے جتنے گرےجوےٹ پےدا کئے ہےں اتنے ہندوستان کے کسی اور گاﺅں نے نہےں پےدا کئے ہوںگے۔ اس طرح اس نے عربی کے بھی متعدد منتہی پےدا کےے۔ انہی مےں سےد سلےمان کا شمار ہے۔دارالعلوم ندوہ کے کسی سالانہ اجلاس مےں سےد صاحب نے پہلی دفعہ عربی مےں برجستہ تقرےر کی جسے سن کو علامہ شبلی اس قدر خوش ہوئے کہ انہوںنے جلسہ مےں اپنا عمامہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دےا۔ اسی طرح جب علامہ سےد رشےد رضا (اےڈےٹر المنار) دارالعلوم ندوہ دےکھنے کے لئے لکھنو ¿ آئے تو اس موقع پر سےد سلےمان نے عربی مےں ان کا خےر مقدم کےا جس سے رشےد رضا اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوںنے انہےں گلے لگالےا۔
بالائے عرش زہوش مندی
می تافت ستارئہ بلندی
سےد صاحب نے کچھ دن تک دارالعلوم کی سند تدرےس کو زےنت بخشی۔ کچھ عرصہ تک ”الہلال“ مےں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ کام کےا۔ اس کے بعد دکن کالج پونا مےں دوسال تک فارسی کے اسسٹنٹ پروفےسر رہے۔ پھر علامہ شبلی نے انہےں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دےنے اور دارالمصنفےن مےں آکر کام کرنے کا حکم دےا۔ چنانچہ وہ اپنے استاد کی خواہش پر دارالمصنفےن چلے گئے۔ پونا کے دوران قےام مےں انہوںنے ”ارض القرآن“ لکھی جسے مشرق ومغرب کے مستشرقےن نے بہت سراہا۔ اس موضوع پر ےہ پہلی کتاب ہے اور تحقےق وعلمےت کا نادر نمونہ ہے۔ وفات سے قبل علامہ شبلی نے سےد صاحب سے تاکےد فرماےا کہ ”سےرت نبوی کے کام کو سب کاموں پر اولےت دی جائے“ ےہ حقےقت ہے کہ جس خوش اسلوبی سے انہوںنے اپنے آستانہ کی نامکمل کتاب کو پاےہ تکمےل پہنچاےا اس کی وجہ سے علمی دنےا مےں ان کا نام دور دور مشہور ہوگےا۔ سےرت کی چھ جلدوں مےں ابتدائی پونے دو استاد کی ہےں۔ سےد صاحب ساری عمر طالب علم رہے۔ اےک زمانہ مےں وہ سےاسےات مےں بھی حصہ لےتے تھے لےکن انہوںنے اس خارزار سے بہت جلد اپنا دامن چھڑالےا اور خاموش علمی خدمت مےں اپنی بقےہ عمر گزاردی۔ ان کی کتابےں ”عمر خےام“ عرب وہند کے تعلقات“ وغےرہ تحقےق کے اعتبار سے حرف آخر کی حےثےت رکھتی ہے۔
۰۲۹۱ءمےں جب وفد خلافت انگلستان بھےجنے کی تجوےز ہوئی تو اپنی غےر معمولی علمی فضےلت کی وجہ سے انہےں علمائے ہند کی جانب سے وفد مےں شامل کےا گےا۔ وہاں انہوںنے ممتاز مستشرقےن سے ملاقاتےں کےں اور انہےں اپنا ہم خےال بناےا۔ جولائی کے ”فارےن افےئرز“ مےں ان کا اےک مضمون شائع ہوا تھا جس مےں خلافت کے مذہبی پہلو کو نہاےت قابلےت سے اجاگر کےا گےا تھا۔ سےد صاحب کا اےک اور کارنامہ ےہ ہے کہ انہوںنے اپنے استاد کے سوانح حےات اےک مبسوط کتاب کی صورت مےں لکھی۔
سےد صاحب کی نماز جنازہ نےوٹاﺅن مسجد (لاہور) مےں ہزارہا اشخاص کی موجودگی مےں ادا کی گئی۔ مملکت شام کے ثقافتی اتاشی شےخ ابوالخےر نے تدفےن کے بعد تقرےر کرتے ہوئے فرماےا: ”مجھے غم اس بات کا نہےں ہے کہ سےد سلےمان ہم مےں سے اٹھ گئے، مجھے اگر غم ہے تو اس بات کا کہ علم بھی ان کے ساتھ دفن ہوگےا“۔
سےد صاحب فطرةً نہاےت خاموش اور قناعت پسند انسان تھے۔ ان کی زندگی مےں ہمےں دےن ودنےا دونوں متوازن طرےقے سے سموئے ہوئے ملتے ہےں۔ ان کی زندگی کی پاکےزگی ان کے چہرے سے ہوےدا تھی۔ جن دنوں وہ دکن کالج پونا سے وابستہ تھے، اسی زمانہ کا اےک واقعہ مجھے ےاد رہ گےا ہے جسے خود سےد صاحب نے سناےا تھا۔ فرماتے تھے: ”ہمارے کالج کا اےک پروفےسر مراٹھی مےں کسی کو ڈانٹ رہاتھا، لےکن گالےاں اردو مےں دے رہا تھا۔ اس پر مےں نے پوچھا کہ کےا مراٹھی مےں ان گالےوں کے مترادفات موجود ہےں؟ کہا، ہےں تو، مگر اردو کا سا زور ان مےں کہاں؟“ بہرحال سےد صاحب ےہ دےکھ کر خوش تھے کہ خواہ کسی حےثےت سے سہی اردو کا سکہ دور دور تک جاری وساری تو ہے۔
ان کی تنہا ذات اےک انجمن کی حےثےت رکھتی تھی۔ عام مولوےوں کی طرح وہ زاہد خشک نہ تھے۔ وہ بلبل ہزار داستان تھے اور ےوروپ اور حجاز کے سفروں کے واقعات مزے لے لے کر بےان کرتے تھے۔ ان کی طبےعت مےں مزاح تھا لےکن وہ شائستگی کے حدود سے کبھی آگے نہےں بڑھا۔ اس سلسلہ مےں اےک واقعہ قابل ذکر ہےں۔ اےک دفعہ مولانا.... دارالمصنفےن تشرےف لائے۔ عےن اس وقت کہےں سے کوئی گدھا بھی اندر آگےا۔ مولانا نے حےرت سے سےد صاحب سے پوچھا کہ ”ےہاں گدھے بھی آجاتے ہےں؟“ فرماےا، ”ہاں، کبھی کبھی باہر سے آجاتے ہےں۔“ ےہ جواب سن کر مولانا چپ سادھ گئے۔ انہےںجو محبت اپنے استاد (علامہ شبلی) سے تھی اسے دےکھ کر پرانے زمانے کے گرو اور چےلے کے تعلقات کی ےاد تازہ ہوجاتی تھی۔ موجودہ دور کے شاگردوں مےں ان کا سا شغف کبھی دےکھنے مےں نہےں آسکتا۔
جس زمانہ مےں مےں مدخولہ حکومت بمبئی مےں تھا، دوسرے فرائض کے علاوہ مولانا محمد علی کے خطوط کو سنسر کرنے کی خدمت بھی مےرے سپرد تھی۔ بےجاپور کی قےد کے زمانہ مےں مولانا ۰۸۔۰۸ صفحات کے خط لکھا کرتے تھے اور ان مےں جہاں دنےا بھر کی باتےں ہوتی تھےں وہاں ان کا تازہ کلام بھی ہوتا تھا۔ بےجاپور سے اپنی رہائی سے قبل جو آخری خط مولانا نے لکھا اس مےں ان کی ۲۲اشعار کی اےک غزل بھی تھی جس کا مطلع تھا:
ہے ےہاں نام عشق کا لےنا
اپنے پےچھے بلا لگالےنا
مےں نے غزل نقل کرکے ”معارف“ مےں چھپنے کے لئے بھےج دی اور پروفےسر سےد سعےد رضا کے ذرےعہ ےہ ہداےت بھجوادی کہ ےہ ظاہر نہ ہونے پائے کہ غزل ان تک کےسے پہنچی۔ مگر سےد صاحب کے شوخ قلم نے تمہےد کے طور پر ےہ الفاظ بڑھا ہی دےے: ”جناب جوہر کا ےہ کلام ان کی آزادی سے پہلے آزاد ہوکر ہمارے پاس پہنچا تھا۔“
سےد صاحب کی موت سے پاکستان اور بھارت دونوں اےک شرےف ترےن شخصےت، اےک بے بدل فاضل، اےک زبردست مصنف، اےک غےر جانبدار مورخ اور اےک عالم با عمل کی خدمات سے محروم ہوگئے۔ اےسے اشخاص کہےں صدےوں مےں جاکر پےدا ہوتے ہےں اور جب تک زندہ رہتے ہےں اپنی زندگی کی درخشانی سے دنےا کو منور کرجاتے ہےں اور مرنے کے بعد بھی فےض پہنچاتے رہتے ہےں۔
ماہرالقادری لکھتے ہےں کہ مولانا سےد سلےمان ندوی کے قلم نے دس بےس سال نہےں، پچاس سال تک دےن اور علم وادب کی گراں قدر خدمت انجام دی ہے، علامہ شبلی نعمانی کے سجادئہ علم وفضل کو انہی نے سنبھالا او ر اپنے استاد کی جانشےنی کا حق ادا کردےا، شبلی نعمانی نے لائق شاگرد کو مرتے دم وصےت کی تھی کہ سےرة النبی صلی اللہ علےہ وسلم کے کام کو پورا کرنا اور سےد صاحب مرحوم نے اس عظےم الشان کام کو اس خوبی کے ساتھ انجام دےا کہ وہ دےن واخلاق اور تارےخ ادب کا قابل فخر کارنامہ بن گےا اور اس طرح استاد اور شاگرد دونوں نے اپنی آخرت کے لئے نےکی اور ثواب کا ذخےرہ فراہم کرلےا (رحمہما اللہ وجزاہما خےرالجزائ)
سےرة النبی کے مجلدات کے علاوہ ”ارض القرآن“، ”سےرت عائشہ“ اور ”خطبات مدارس“ سےد صاحب مرحوم کی معرکہ آرا تصانےف ہےں، دوسری چھوٹی چھوٹی کتابےں اور علمی اور تارےخی مضامےن بھی بڑے کام کی چےزےں ہےں، کمےونزم کے بارے مےں سےد صاحب مرحوم کا ےہ جملہ ےقےنا ضرب المثل بن کر رہے گا کہ ”ےہ (کمےونزم) وقت واحد مےں بادشاہ کو تخت سے اور خدا کو عرش سے اتار دےنا چاہتا ہے۔“
سےد صاحب مرحوم کو اپنے استاد سے شعر وسخن کا جو ذوق ورثہ مےں ملا تھا، اسی ذوق نے ”عمر وخےام“ پر ان سے کتاب لکھوادی، اس قدر تحقےق اور تفصےل کے ساتھ کسی اےرانی ادےب اور تنقےد نگار نے بھی خےام پر غالباً کوئی کتاب نہےں لکھی۔ مجلہ ”معارف“ کو جو وقار، مرتبت اور اونچے علمی حلقوں مےں قبولےت حاصل ہوئی، وہ سب کچھ سےد صاحب مرحوم کی کامےاب ادارت کا ظہور تھا۔ حےات شبلی بھی سےد صاحب کی بلندپاےہ تصنےف ہے اور فن سےرت نگاری (بےوگرافی) پر معےاری کتاب ہے۔
سےد صاحب قدس سرہ عربی زبان کے بڑے اچھے انشا پرداز تھے، انگرےزی بھی بقدر ضرورت ان کو آتی تھی، ارض القرآن کی تصنےف کے سلسلہ مےں تھوڑی سی عبرانی بھی سےکھ لی تھی اور فارسی دانی کا ےہ عالم تھا کہ علامہ اقبالؒ کے فارسی کلام کی غلطےوں پر گرفت کی اور ان کے بعض مشوروں کو اقبال نے قبول کرلےا، علامہ اقبال نے سےد صاحب مرحوم کو اےک بار لکھا تھا کہ مےری مثنوی پر نکلسن کی رائے آچکی ہے مگر مےں آپ کی رائے کا منتظر ہوں!
سےد صاحبؒ نے اپنے تلامذہ کی جو جماعت چھوڑی ہے ان مےں سے بعض شاگرد اپنی جگر خود زندہ دبستان ہےں اور علمی دنےا مےں بڑی شہرت رکھتے ہےں! سےد صاحب کا ہمارے درمےان سے اٹھ جانا اےک علمی حادثہ ہی نہےں دےنی سانحہ بھی ہے۔ رئےس الاصرار مولانا محمد علی جوہر خلافت کے جس وفد کو لےکر انگلستان گئے تھے، سےد صاحب بھی اس کے اےک رکن تھے، اس سلسلہ مےں انہےں ےوروپ کی سےاحت کا بھی موقع مل گےا، ااےک ادےب، مورخ اور محقق کے لئے اس قسم کی سےر وسفر بہت ہی مفےد ثابت ہوتا ہے اور فکر ونظر مےں وسعت پےدا ہوجاتی ہے۔ آخر زمانہ مےں ےعنی وفات سے چند سال قبل حکےم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حلقہ ارادت مےں سےد صاحب مرحوم داخل ہوگئے تھے۔ ”ندوےت“ اور ”خانقاہےت“ کا ےہ امتزاج بھی دےدنی تھا!!
علامہ سےد سلےمان ندوی
بدو شعور ہی سے جن اہل ِقلم اور ارباب علم کا مےں نے نام سنا ہے اور جن کی تصانےف اور مضامےن کا مےں نے اثر قبول کےا ہے ، سےد سلےمان ندوی رحمة اللہ علےہ بھی انہی مےں شامل ہےں ۔ اب سے کوئی اٹھارہ بےس سال پہلے کی بات ہے جب مےرا کلام رسالہ ”معارف مےں چھپا کرتا تھا، سےد صاحب مرحوم اس کے چونکہ مدےر تھے اس لئے مےں اپنا کلام انہی کی خدمت مےں بھےجتا تھا اور کارڈ پر دو چار سطروں مےں خط کی رسےد روانہ فرما دےا کرتے تھے ۔ اتنے بڑے آدمی کے قلم کی چند سطرےں بھی مےرے لئے بہت کچھ تھےں اور مےں حضرت سےدصاحب کے مکتوب گرامی کو بار بار پڑھا کرتا تھا ۔
اےک بار اےسا ہوا کہ مےری اےک غزل مجلہ ”معارف “مےں اس طرح چھپی کہ ا سکے چند مصرعے بدلے ہوئے تھے ، مےں نے سےد صاحب مرحوم کی خدمت مےں عرےضہ بھےجا اور بڑے ادو کے ساتھ عرض کےا کہ مےں اپنی شاعری کو اصلاحسے بے نےاز نہےں سمجھتا بلکہ مےں تو ارباب ذوق کے مفےد مشورے شکرےہ کے ساتھ قبول کرلےا کرتاہوں ۔ لےکن آپ کے رسالہ مےں جو مےری غزل شائع ہوئی ہے اور اس کے جن مصرعوں پر اصلاح دی گئی ہے تو اس ”اصلاح “نے مےرے اصل شعروں کے تھوڑے بہت حسن کو بھی غارت کردےا ہے ۔ سےد صاحب نے اس کے جواب مےں تحرےر فرما کہ صاحب اس حک و اصلاح کے ذمہ دار ہےں مےں نے انہےں تاکےد کردی ہے اب اےسا نہ ہوگا ۔
اےک بار حضرت سےد صاحب ( نور اللہ مرقدہ ¾) نے مجھے ”سےد ماہر القادری “لکھا مےں نے جواب مےں عرض مےں ” سےد “ بلکہ ”سادات کرام “کا نےاز مند اور حاشےہ بردار ہوں ، مگر آپ بھی معذور ہےں ۔المر ءےقےس علی نفسہ !
غالبا اسی مےرے معروضہ کے جواب مےں سےد صاحب مرحوم نے تحرےر فرماےا کہ جن احباب سے اشتےاق کے باوجود ملاقات نہ ہوسکی ، ان مےں آپ بھی شامل ہےں ۔مگر روز اول کی ملاقات تو ثابت ہے ۔ مےں نے جواب دےا کہ آ نے مجھ ہےچمداں کے بارے مےں اپنے کرم سے جو کچھ ارقام فرماےا اس نے مےری آبرو بڑھائی ہے ۔
کلاہ گوشہ دہقاں بہ آفتاب رسےد
اب رہی ” روزازل“کی ملاقات تو افسوس ہے کہ اس کی ےاد ذہنوں مےں محفوظ نہےں رہی ۔ حافظہ پر بہت کچھ زور ڈالنے کے بعد بھی سنہ کا ٹھےک طور پر تعےن نہےں کرسکتا غالبا ۷۳۹۱ءمےں حکومت حےدر آباد دکن کی طرف سے اےک عملی اور تارےخی کانفرنس منعقد ہوئی تھی ۔ بلدہ حےدر آباد کے ”باغ عام “ کا ہال جہاں اب وہاں کی اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے ۔کانفرنس مذکور کے لئے مخصوص تھا اور ہندوستان کے ہر صوبے کے نمائندے اس مےں شرےک ہوئے تھے ۔ ، مےں جب ”باغ عام “ پہنچا تو سےد صاحب مرحوم کانفرنس ہال سے نکل کر مسجد کی طرف آرہے تھے اور بہت سے اہل علم ان کے ساتھ ساتھ تھے ۔ سےد صاحب کے پہنچاننے مےں مجھے ذرا سی بھی دشواری نہےں ہوئی ۔ ان کے عمامے کے پےچ ، ان کا نورانی چہرہ ، اور ان ک باوقار رفتار بتارہی تھی کہ ” سےرة النبی “ کا مصنف ےہی ہے ۔ عصر کی نماز سےد صاحب مرحوم کے ساتھ ہی ادا کی ،مگر تعارف اور ملاقات کا وہاں کوئی موقعہ ہی نہ تھا ،بہت سے مشتاق اور عقےدت مند سےد صاحب کے ارد گرد تھے !مجھے اس کی مسرت تھی کہ جس کے لکھے ہوئے ہزاروں صفحے مےں پڑھ چکا ہوں اس عظےم شخصےت کو آج دےکھ بھی لےا ۔
اس واقعہ کے کوئی چار سال بعد حےدر آباد دکن کی مشہور علمی درسگاہ ”نظام کالج “ کے شعبہ فارسی کی طرف سے اےک ادبی جلسہ کا انتظام کےا گےا ۔ نواب ظہےر ےار جنگ بہادر ( صدر المہام ) جلسہ کے صدر تھے ۔ مولانا سےد سلےمان ندوی مرحوم ان دنوں حےدر آباد تشرےف لائے ہوئے تھے۔ ان کی تشرےف آوری سے ” نظام کالج “ والوں نے بروقت فائدہ اٹھاےا اور سےد صاحب مرحوم کی جلسہ مےں شرکت کے لئے اراضی کرلےا ۔ سےد صاحب مرحوم نے عمر خےام کی زندگی اور شاعریپراےک بسےط تقرےر فرمائی ،مےں نے اسی جلسہ مےں اےک فارسی غزل سنائی !
زمانہ بڑا گرےز پا واقع ہوا ہے ، بس ذار پلک جھپکی اور جگ بےت گئے ۔
مےں ۲۴۹۱ءمےں حےدر آباد چھوڑ کر دہلی چلاےا آےا ، ےہ دور ہندوستان مےں بڑی سےاسی معرکہ آرائےوں کا دور تھا۔ ےہاں تک کہ ہندوستان تقسےم ہوگےا ۔ اور اس کے بعد جو خونرےز ہنگامے ہوئے وہ تارےخ کے اوراق پر ہی نہےں بلکہ مادر گےتی کی پےشانی پر اپنا خونےں نقش چھوڑ گئے ۔ہندوستان کے مسلمان آگاور خون کے جس خوفناک طوفان سے گزرے ہےں وہ داستان بڑی ہی درد ناک ہے ۔
وطن مےں جب حالات انتہائی خطرناک ہوگئے تو مجھے پاکستان آنا پڑااور ےہاں آئے ہوئے بھی چھ سال ہوگئے ۔ اپرےل ۹۴ ءمےں ”فاران “کا پہلا پرچہ نکلا ، اس زمانہ مےں علامہ سےد سلےمان ندوی علےہ الرحمہ کا قےام بھوپال مےں تھا ۔ مےں نے مضمون کی درخواست کی ۔ سےد صاحب مرحوم نے پےرانہ سالی کی معذرت کے ساتھ محبت آمےز جواب دےا ،پھر اس کے تقرےبا تےن سال بعد اللہ کا کرنا اےسا ہوا کہ خود سےد صاحب کراچی چلے آئے اور چلے کےا آئے ےہاں آکر بس گئے !
اب تک سےد صاحب مرحوم سے خط و کتابت کے ذرےعہ شناسائی تھی ےا اےک دوبار بہت ہی مختصر سی ملاقات ہوئی تھی ۔ حصول نےاز کی سعادت حقےقت مےں ےہاں کراچی مےں حاصل ہوئی ۔ ڈار منزل ( سےد صاحب کی قےام گاہ ) عموما مےں عصر کے وقت جاےا کرتا تھا ۔ سےد صاحب مرحوم جب کراچی تشرےف لائے ہےں ۔اور مےں پہل بار حاضر ہوا ہوں تو بڑے تپاک اور انتہائی شفقت کے ساتھ ملے ۔ اس کے غالبا تےسری ملاقات مےں اےک چھوٹی سی کاپی نکالی ،ےہ ان کی بےاض تھی ، بےاض کھول کر اپنی دو تےن غزلےں مجھے سنائےں ۔
سےدصاحب قدس سرہ کی خدمت مےں مےری حاضری فےض و استفادہ کی غرض سے ہوتی تھی ، اےک بار مےں نے درےافت کےا کہ مےں صبح کو نماز فجر کے بعد قرآن شرےف پڑھ کر حضور نبی کرےم علےہ الصلوة و التسلےم کی روح مقدس اور دوسرے بزرگوں اور اپنے عزےزوں کی ارواح کو ثواب پہنچاےا کرتا ہوں ، کےا سنت نبوی ےا آثار صحابہ مےں اس کے لئے کوئی نظےر ملتی ہے ؟ اس پرسےد صاحب مرحوم نے مسکرا کر فرماےا کہ مےں بھی ےہی کرتا ہوں مگر اس کے لئے لوئی سند مجھے نہےں ملی ۔ ےوں سمجھو کہ ےہ ثواب ”بےنک “مےں جمع ہوتا رہتا ہے۔ ”جماعت اسلامی “کے سلسلہ مےں دو تےن بار کافی طوےل بحث چھڑ گئی او رمےں نے سخت گفتگو کی ، مےں مدافعت حق کے جوش مےں ےہ تک بھول گےا کہ کتنی بڑی شخصےت سے ہم کلام ہوں ، مگر سےد صاحب مرحوم نے مےری کڑی تنقےد کا برا نہےں مانا ، ےہ ان کی وسعت ظرف عالی حوصلگی اور اپنے خور دوں اور نےاز مندوں کے ساتھ عفو و در گذر کی دلےل تھی ۔
اےک بار ”وحدت الوجود“ پر وہ مجھے بعض بنےادی نکات سمجھانے لگے، مےں خاموشی کے ساتھ سنتا رہا، مگر پھر اےسے لطائف درمےان مےں آگئے کہ مجھ سے خاموش نہ رہا گےا، مےں نے کئی بار اعتراض کےا اس پر سےد صاحب مرحوم بولے: ”تم نے کہےں عشق بھی کےا ہے....؟“ مےں شرماکر چپ ہوگےا.... حالاںکہ:
کس زبانِ چشم خوباں را نہ می داند چومن
روزگارے اےں غزالاں را شبانی کردہ ام
سےد صاحب مرحوم اپنے زہد وورع اور علمی جلالت کے باوجود شگفتہ مزاج بھی تھے، اسلامےہ کالج (کراچی) مےں اےک ادبی اجتماع تھا، اور عصرانہ کابھی انتظام تھا، چائے پےنے کے لئے جب ہال مےں پہنچے تو وہاں کالج کی طالبات بھی تھےں، سےد صاحب مرحوم نے ےہ رنگ دےکھ کر مجھ سے فرماےا: ”اس زمانہ مےں عورت کسی جگہ پےچھا نہےں چھوڑتی“۔
سےد صاحبؒ نے اپنے تلامذہ کی جو جماعت چھوڑی ہے اُن مےں سے بعض شاگرد اپنی جگہ خود دبستان ہےں اور علمی دنےا مےں بڑی شہرت رکھتے ہےں! سےد صاحب کا ہمارے درمےان سے اُٹھ جانا اےک علمی حادثہ ہی نہےں دےنی سانحہ بھی ہے۔
٭٭٭
بدو شعور ہی سے جن اہل ِقلم اور ارباب علم کا مےں نے نام سنا ہے اور جن کی تصانےف اور مضامےن کا مےں نے اثر قبول کےا ہے ، سےد سلےمان ندوی رحمة اللہ علےہ بھی انہی مےں شامل ہےں ۔ اب سے کوئی اٹھارہ بےس سال پہلے کی بات ہے جب مےرا کلام رسالہ ”معارف مےں چھپا کرتا تھا، سےد صاحب مرحوم اس کے چونکہ مدےر تھے اس لئے مےں اپنا کلام انہی کی خدمت مےں بھےجتا تھا اور کارڈ پر دو چار سطروں مےں خط کی رسےد روانہ فرما دےا کرتے تھے ۔ اتنے بڑے آدمی کے قلم کی چند سطرےں بھی مےرے لئے بہت کچھ تھےں اور مےں حضرت سےدصاحب کے مکتوب گرامی کو بار بار پڑھا کرتا تھا ۔
اےک بار اےسا ہوا کہ مےری اےک غزل مجلہ ”معارف “مےں اس طرح چھپی کہ ا سکے چند مصرعے بدلے ہوئے تھے ، مےں نے سےد صاحب مرحوم کی خدمت مےں عرےضہ بھےجا اور بڑے ادو کے ساتھ عرض کےا کہ مےں اپنی شاعری کو اصلاحسے بے نےاز نہےں سمجھتا بلکہ مےں تو ارباب ذوق کے مفےد مشورے شکرےہ کے ساتھ قبول کرلےا کرتاہوں ۔ لےکن آپ کے رسالہ مےں جو مےری غزل شائع ہوئی ہے اور اس کے جن مصرعوں پر اصلاح دی گئی ہے تو اس ”اصلاح “نے مےرے اصل شعروں کے تھوڑے بہت حسن کو بھی غارت کردےا ہے ۔ سےد صاحب نے اس کے جواب مےں تحرےر فرما کہ صاحب اس حک و اصلاح کے ذمہ دار ہےں مےں نے انہےں تاکےد کردی ہے اب اےسا نہ ہوگا ۔
اےک بار حضرت سےد صاحب ( نور اللہ مرقدہ ¾) نے مجھے ”سےد ماہر القادری “لکھا مےں نے جواب مےں عرض مےں ” سےد “ بلکہ ”سادات کرام “کا نےاز مند اور حاشےہ بردار ہوں ، مگر آپ بھی معذور ہےں ۔المر ءےقےس علی نفسہ !
غالبا اسی مےرے معروضہ کے جواب مےں سےد صاحب مرحوم نے تحرےر فرماےا کہ جن احباب سے اشتےاق کے باوجود ملاقات نہ ہوسکی ، ان مےں آپ بھی شامل ہےں ۔مگر روز اول کی ملاقات تو ثابت ہے ۔ مےں نے جواب دےا کہ آ نے مجھ ہےچمداں کے بارے مےں اپنے کرم سے جو کچھ ارقام فرماےا اس نے مےری آبرو بڑھائی ہے ۔
کلاہ گوشہ دہقاں بہ آفتاب رسےد
اب رہی ” روزازل“کی ملاقات تو افسوس ہے کہ اس کی ےاد ذہنوں مےں محفوظ نہےں رہی ۔ حافظہ پر بہت کچھ زور ڈالنے کے بعد بھی سنہ کا ٹھےک طور پر تعےن نہےں کرسکتا غالبا ۷۳۹۱ءمےں حکومت حےدر آباد دکن کی طرف سے اےک عملی اور تارےخی کانفرنس منعقد ہوئی تھی ۔ بلدہ حےدر آباد کے ”باغ عام “ کا ہال جہاں اب وہاں کی اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے ۔کانفرنس مذکور کے لئے مخصوص تھا اور ہندوستان کے ہر صوبے کے نمائندے اس مےں شرےک ہوئے تھے ۔ ، مےں جب ”باغ عام “ پہنچا تو سےد صاحب مرحوم کانفرنس ہال سے نکل کر مسجد کی طرف آرہے تھے اور بہت سے اہل علم ان کے ساتھ ساتھ تھے ۔ سےد صاحب کے پہنچاننے مےں مجھے ذرا سی بھی دشواری نہےں ہوئی ۔ ان کے عمامے کے پےچ ، ان کا نورانی چہرہ ، اور ان ک باوقار رفتار بتارہی تھی کہ ” سےرة النبی “ کا مصنف ےہی ہے ۔ عصر کی نماز سےد صاحب مرحوم کے ساتھ ہی ادا کی ،مگر تعارف اور ملاقات کا وہاں کوئی موقعہ ہی نہ تھا ،بہت سے مشتاق اور عقےدت مند سےد صاحب کے ارد گرد تھے !مجھے اس کی مسرت تھی کہ جس کے لکھے ہوئے ہزاروں صفحے مےں پڑھ چکا ہوں اس عظےم شخصےت کو آج دےکھ بھی لےا ۔
اس واقعہ کے کوئی چار سال بعد حےدر آباد دکن کی مشہور علمی درسگاہ ”نظام کالج “ کے شعبہ فارسی کی طرف سے اےک ادبی جلسہ کا انتظام کےا گےا ۔ نواب ظہےر ےار جنگ بہادر ( صدر المہام ) جلسہ کے صدر تھے ۔ مولانا سےد سلےمان ندوی مرحوم ان دنوں حےدر آباد تشرےف لائے ہوئے تھے۔ ان کی تشرےف آوری سے ” نظام کالج “ والوں نے بروقت فائدہ اٹھاےا اور سےد صاحب مرحوم کی جلسہ مےں شرکت کے لئے اراضی کرلےا ۔ سےد صاحب مرحوم نے عمر خےام کی زندگی اور شاعریپراےک بسےط تقرےر فرمائی ،مےں نے اسی جلسہ مےں اےک فارسی غزل سنائی !
زمانہ بڑا گرےز پا واقع ہوا ہے ، بس ذار پلک جھپکی اور جگ بےت گئے ۔
مےں ۲۴۹۱ءمےں حےدر آباد چھوڑ کر دہلی چلاےا آےا ، ےہ دور ہندوستان مےں بڑی سےاسی معرکہ آرائےوں کا دور تھا۔ ےہاں تک کہ ہندوستان تقسےم ہوگےا ۔ اور اس کے بعد جو خونرےز ہنگامے ہوئے وہ تارےخ کے اوراق پر ہی نہےں بلکہ مادر گےتی کی پےشانی پر اپنا خونےں نقش چھوڑ گئے ۔ہندوستان کے مسلمان آگاور خون کے جس خوفناک طوفان سے گزرے ہےں وہ داستان بڑی ہی درد ناک ہے ۔
وطن مےں جب حالات انتہائی خطرناک ہوگئے تو مجھے پاکستان آنا پڑااور ےہاں آئے ہوئے بھی چھ سال ہوگئے ۔ اپرےل ۹۴ ءمےں ”فاران “کا پہلا پرچہ نکلا ، اس زمانہ مےں علامہ سےد سلےمان ندوی علےہ الرحمہ کا قےام بھوپال مےں تھا ۔ مےں نے مضمون کی درخواست کی ۔ سےد صاحب مرحوم نے پےرانہ سالی کی معذرت کے ساتھ محبت آمےز جواب دےا ،پھر اس کے تقرےبا تےن سال بعد اللہ کا کرنا اےسا ہوا کہ خود سےد صاحب کراچی چلے آئے اور چلے کےا آئے ےہاں آکر بس گئے !
اب تک سےد صاحب مرحوم سے خط و کتابت کے ذرےعہ شناسائی تھی ےا اےک دوبار بہت ہی مختصر سی ملاقات ہوئی تھی ۔ حصول نےاز کی سعادت حقےقت مےں ےہاں کراچی مےں حاصل ہوئی ۔ ڈار منزل ( سےد صاحب کی قےام گاہ ) عموما مےں عصر کے وقت جاےا کرتا تھا ۔ سےد صاحب مرحوم جب کراچی تشرےف لائے ہےں ۔اور مےں پہل بار حاضر ہوا ہوں تو بڑے تپاک اور انتہائی شفقت کے ساتھ ملے ۔ اس کے غالبا تےسری ملاقات مےں اےک چھوٹی سی کاپی نکالی ،ےہ ان کی بےاض تھی ، بےاض کھول کر اپنی دو تےن غزلےں مجھے سنائےں ۔
سےدصاحب قدس سرہ کی خدمت مےں مےری حاضری فےض و استفادہ کی غرض سے ہوتی تھی ، اےک بار مےں نے درےافت کےا کہ مےں صبح کو نماز فجر کے بعد قرآن شرےف پڑھ کر حضور نبی کرےم علےہ الصلوة و التسلےم کی روح مقدس اور دوسرے بزرگوں اور اپنے عزےزوں کی ارواح کو ثواب پہنچاےا کرتا ہوں ، کےا سنت نبوی ےا آثار صحابہ مےں اس کے لئے کوئی نظےر ملتی ہے ؟ اس پرسےد صاحب مرحوم نے مسکرا کر فرماےا کہ مےں بھی ےہی کرتا ہوں مگر اس کے لئے لوئی سند مجھے نہےں ملی ۔ ےوں سمجھو کہ ےہ ثواب ”بےنک “مےں جمع ہوتا رہتا ہے۔ ”جماعت اسلامی “کے سلسلہ مےں دو تےن بار کافی طوےل بحث چھڑ گئی او رمےں نے سخت گفتگو کی ، مےں مدافعت حق کے جوش مےں ےہ تک بھول گےا کہ کتنی بڑی شخصےت سے ہم کلام ہوں ، مگر سےد صاحب مرحوم نے مےری کڑی تنقےد کا برا نہےں مانا ، ےہ ان کی وسعت ظرف عالی حوصلگی اور اپنے خور دوں اور نےاز مندوں کے ساتھ عفو و در گذر کی دلےل تھی ۔
اےک بار ”وحدت الوجود“ پر وہ مجھے بعض بنےادی نکات سمجھانے لگے، مےں خاموشی کے ساتھ سنتا رہا، مگر پھر اےسے لطائف درمےان مےں آگئے کہ مجھ سے خاموش نہ رہا گےا، مےں نے کئی بار اعتراض کےا اس پر سےد صاحب مرحوم بولے: ”تم نے کہےں عشق بھی کےا ہے....؟“ مےں شرماکر چپ ہوگےا.... حالاںکہ:
کس زبانِ چشم خوباں را نہ می داند چومن
روزگارے اےں غزالاں را شبانی کردہ ام
سےد صاحب مرحوم اپنے زہد وورع اور علمی جلالت کے باوجود شگفتہ مزاج بھی تھے، اسلامےہ کالج (کراچی) مےں اےک ادبی اجتماع تھا، اور عصرانہ کابھی انتظام تھا، چائے پےنے کے لئے جب ہال مےں پہنچے تو وہاں کالج کی طالبات بھی تھےں، سےد صاحب مرحوم نے ےہ رنگ دےکھ کر مجھ سے فرماےا: ”اس زمانہ مےں عورت کسی جگہ پےچھا نہےں چھوڑتی“۔
سےد صاحبؒ نے اپنے تلامذہ کی جو جماعت چھوڑی ہے اُن مےں سے بعض شاگرد اپنی جگہ خود دبستان ہےں اور علمی دنےا مےں بڑی شہرت رکھتے ہےں! سےد صاحب کا ہمارے درمےان سے اُٹھ جانا اےک علمی حادثہ ہی نہےں دےنی سانحہ بھی ہے۔
٭٭٭
مولانا سےد سلےمان ندوی کے قلم نے دس بےس سال نہےں، پچاس سال تک دےن اور علم وادب کی گرانقدر خدمت انجام دی ہے، علامہ شبلی نعمانی کے سجادئہ علم وفضل کو انہی نے سنبھالا اور اپنے استاد کی جانشےنی کا حق ادا کردےا، شبلی نعمانی نے لائق شاگرد کو مرتے دم وصےت کی تھی کہ سےرة النبی کے کام کو پورا کرنا اور سےد صاحب مرحوم نے اس عظےم الشان کام کو اس خوبی کے ساتھ انجام دےا کہ وہ دےن واخلاق اور تارےخ وادب کا قابل فخر کارنامہ بن گےا اور اس طرح استاد اور شاگرد دونوں نے اپنی آخرت کے لئے نےکی اور ثواب کا ذخےرہ فراہم کرلےا (رحمہما اللہ تعالیٰ وجزاہما اللہ خےرالجزائ)
سےرة النبی کے مجلدات کے علاوہ ”ارض القرآن“ ”سےرت عائشہؓ“ اور ”خطبات مدارس“ سےد صاحب مرحوم کی معرکہ آراءتصانےف ہےں، دوسری چھوٹی چھوٹی کتابےں اور علمی اور تارےخی مضامےن بھی بڑے کام کی چےزےں ہےں! کمےونزم کے بارے مےں سےد صاحب مرحوم کا ےہ جملہ ےقےنا ضرب المثل بن کر رہے گا کہ ”ےہ کمےونزم“ وقت واحد مےں بادشاہ کو تخت سے اور خدا کو عرش سے اُتار دےنا چاہتا ہے“۔
سےد صاحب مرحوم کو اپنے اُستاب سے شعر وسخن کا جو ذوق ورثہ مےں ملا تھا، اُسی ذوق نے ”عمر وخےام“ پر اُن سے کتاب لکھوادی، اس قدر تحقےق اور تفصےل کے ساتھ کسی اےرانی ادےب اور تنقےد نگار نے بھی خےام پر غالباً کوئی کتاب نہےں لکھی۔ مجلہ ”معارف“ کو جو وقار، مرتبت اور اُونچے علمی حلقوں مےں قبولےت حاصل ہوئی، وہ سب کچھ سےد صاحب مرحوم کی کامےاب اور ادارت کا ظہور تھا۔ حےات شبلی بھی سےد صاحب کی بلندپاےہ تصنےف ہے اور فن سےرت نگاری (بےوگرافی) پر معےاری کتاب ہے۔
سےرة النبی کے مجلدات کے علاوہ ”ارض القرآن“ ”سےرت عائشہؓ“ اور ”خطبات مدارس“ سےد صاحب مرحوم کی معرکہ آراءتصانےف ہےں، دوسری چھوٹی چھوٹی کتابےں اور علمی اور تارےخی مضامےن بھی بڑے کام کی چےزےں ہےں! کمےونزم کے بارے مےں سےد صاحب مرحوم کا ےہ جملہ ےقےنا ضرب المثل بن کر رہے گا کہ ”ےہ کمےونزم“ وقت واحد مےں بادشاہ کو تخت سے اور خدا کو عرش سے اُتار دےنا چاہتا ہے“۔
سےد صاحب مرحوم کو اپنے اُستاب سے شعر وسخن کا جو ذوق ورثہ مےں ملا تھا، اُسی ذوق نے ”عمر وخےام“ پر اُن سے کتاب لکھوادی، اس قدر تحقےق اور تفصےل کے ساتھ کسی اےرانی ادےب اور تنقےد نگار نے بھی خےام پر غالباً کوئی کتاب نہےں لکھی۔ مجلہ ”معارف“ کو جو وقار، مرتبت اور اُونچے علمی حلقوں مےں قبولےت حاصل ہوئی، وہ سب کچھ سےد صاحب مرحوم کی کامےاب اور ادارت کا ظہور تھا۔ حےات شبلی بھی سےد صاحب کی بلندپاےہ تصنےف ہے اور فن سےرت نگاری (بےوگرافی) پر معےاری کتاب ہے۔
No comments:
Post a Comment